سنن النسائي - حدیث 1843

كِتَابُ الْجَنَائِزِ تَسْجِيَةُ الْمَيِّتِ صحيح أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ يَقُولُ سَمِعْتُ جَابِرًا يَقُولُ جِيءَ بِأَبِي يَوْمَ أُحُدٍ وَقَدْ مُثِّلَ بِهِ فَوُضِعَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ سُجِّيَ بِثَوْبٍ فَجَعَلْتُ أُرِيدُ أَنْ أَكْشِفَ عَنْهُ فَنَهَانِي قَوْمِي فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُفِعَ فَلَمَّا رُفِعَ سَمِعَ صَوْتَ بَاكِيَةٍ فَقَالَ مَنْ هَذِهِ فَقَالُوا هَذِهِ بِنْتُ عَمْرٍو أَوْ أُخْتُ عَمْرٍو قَالَ فَلَا تَبْكِي أَوْ فَلِمَ تَبْكِي مَا زَالَتْ الْمَلَائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1843

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل میت کوڈھانپنا حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد کے دن میرے باپ کی میت اس حال میں لائی گئی کہ ان کا چہرہ بگاڑ دیا گیا تھا۔ (کافروں نے ان کے چہرے کے اعضاء کاٹ ڈالے تھے۔) تو ان کی میت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دی گئی اور اسے ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔ میں منہ سے کپڑا ہٹانے کی کوشش کرتا تھا تو میری قوم کے لوگ مجھے روکتے تھے۔ آخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میت اٹھانے کا حکم دیا۔ جب میت اٹھائی گئی تو آپ نے ایک عورت کے رونے کی آواز سنی تو فرمایا: ’’یہ کون ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: یہ عمرو کی بیٹی یا عمرو کی بہن ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’نہ رو‘‘ یا فرمایا: ’’کیوں روتی ہے؟ میت کے اٹھائے جانے تک فرشتوں نے اسے اپنے مبارک پروں سے سایہ کیے رکھا۔‘‘
تشریح : (۱)’’عمرو کی بیٹی‘‘ اس صورت میں یہ جابر کے شہید والد کی بہن تھیں اور اگر وہ عمرو کی بہن تھیں تو جابر کے والد کی پھوپھی تھیں۔ پہلی بات صحیح ہے کہ وہ شہید کی بہن تھیں ……… رضی اللہ عنہا ……… دراصل یہ کسی راوی کو شک ہے کہ وہ عمرو کی بیٹی تھی یا عمرو کی بہن۔ (۲) ’’سایہ کیے رکھا‘‘ مطلب یہ ہے کہ اتنے شرف والی شہادت پر آہ و زاری مناسب نہیں، اگرچہ دل اور آنکھیں تو غم کرتے ہیں۔ (۳) وفات کے بعد میت کو کپڑے سے ڈھانپ دینا چاہیے تاکہ اگر موت کی وجہ سے اس کے چہرے وغیرہ میں کوئی تغیر آیا ہو تو نظر نہ آئے۔ غسل و تکفین کے بعد جب اسے صاف ستھرا کرکے حتی الامکان خوب صورت بنا دیا جاتا ہے، اس وقت اسے لوگوں کے سامنے چہرہ دیکھنے کے لیے رکھ جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور میں کسی قسم کے تغیر کا امکان نہیں تھا، اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غسل و تکفین سے پہلے بھی آپ کو دیکھا اور بوسہ دیا ……… رضی اللہ عنہ ………۔ (۱)’’عمرو کی بیٹی‘‘ اس صورت میں یہ جابر کے شہید والد کی بہن تھیں اور اگر وہ عمرو کی بہن تھیں تو جابر کے والد کی پھوپھی تھیں۔ پہلی بات صحیح ہے کہ وہ شہید کی بہن تھیں ……… رضی اللہ عنہا ……… دراصل یہ کسی راوی کو شک ہے کہ وہ عمرو کی بیٹی تھی یا عمرو کی بہن۔ (۲) ’’سایہ کیے رکھا‘‘ مطلب یہ ہے کہ اتنے شرف والی شہادت پر آہ و زاری مناسب نہیں، اگرچہ دل اور آنکھیں تو غم کرتے ہیں۔ (۳) وفات کے بعد میت کو کپڑے سے ڈھانپ دینا چاہیے تاکہ اگر موت کی وجہ سے اس کے چہرے وغیرہ میں کوئی تغیر آیا ہو تو نظر نہ آئے۔ غسل و تکفین کے بعد جب اسے صاف ستھرا کرکے حتی الامکان خوب صورت بنا دیا جاتا ہے، اس وقت اسے لوگوں کے سامنے چہرہ دیکھنے کے لیے رکھ جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور میں کسی قسم کے تغیر کا امکان نہیں تھا، اس لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غسل و تکفین سے پہلے بھی آپ کو دیکھا اور بوسہ دیا ……… رضی اللہ عنہ ………۔