سنن النسائي - حدیث 1842

كِتَابُ الْجَنَائِزِ تَقْبِيلُ الْمَيِّتِ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ قَالَ مَعْمَرٌ وَيُونُسُ قَالَ الزُّهْرِيُّ وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَقْبَلَ عَلَى فَرَسٍ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنُحِ حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمْ يُكَلِّمْ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسَجًّى بِبُرْدٍ حِبَرَةٍ فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَكَبَّ عَلَيْهِ فَقَبَّلَهُ فَبَكَى ثُمَّ قَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَاللَّهِ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ أَبَدًا أَمَّا الْمَوْتَةُ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْكَ فَقَدْ مِتَّهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1842

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل میت کو بوسہ دینا حضرت ابوسلمہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے خبر دی کہ (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے تو) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سنح مقام پر واقع اپنے گھر سے گھوڑے پر آئے (تاکہ جلدی پہنچ سکیں) یہاں تک کہ وہ گھوڑے سے اترے اور مسجد میں داخل ہوئے اور کسی سے بات چیت نہیں کی حتی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دھاری دار یمنی چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔ انھوں نے آپ کے چہرۂ مبارک سے کپڑا ہٹایا، پھر جھک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیا اور رونے لگے، پھر کہا: میرا باپ آپ پر قربان! اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ پر دو دفعہ موت طاری نہیں کرے گا۔ جو موت آپ کے لیے مقدر تھی، وہ آپ کو آچکی۔
تشریح : (۱)ان الفاظ کا مقصد ان لوگوں کو تنبیہ کرنا تھا جو شدت غم کی وجہ سے سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی فوت نہیں ہوئے، بے ہوش ہیں۔ یا جو لوگ آپ کی وفات کو عارضی خیال کرتے تھے۔ ان دونوں صورتوں میں گویا آپ پر ایک اور موت آنی تھی۔ اور یہ ناممکن ہے کہ آپ دو دفعہ فوت ہوں۔ (۲) باب کا مقصد یہ ہے کہ مومن موت سے قلید نہیں ہو جاتا بلکہ پاک رہتا ہے، لہٰذا اسے بوسہ دینا اور چھونا جائز ہے جبکہ بعض فقہاء میت کو پلید کہتےہیں لیکن یہ درست نہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: [المسلم لانجس حیا و الامیتا] ’’مومن زندہ ہو یا فوت شدہ، پلید نہیں ہوتا۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، باب غسل المیت ووضوئہ بالماء و السدر، بعد الحدیث: ۱۲۵۲، و مختصر صحیح البخاري، اللألباني، رقم الاثر: ۲۳۹) ہاں کافر مر جائیں تو پلید ہیں۔ (۳) میت پر رونا جائز ہے، واویلا، چیخ و پکار اور جاہلیت کی آہ و بکا درست نہیں۔ (۱)ان الفاظ کا مقصد ان لوگوں کو تنبیہ کرنا تھا جو شدت غم کی وجہ سے سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی فوت نہیں ہوئے، بے ہوش ہیں۔ یا جو لوگ آپ کی وفات کو عارضی خیال کرتے تھے۔ ان دونوں صورتوں میں گویا آپ پر ایک اور موت آنی تھی۔ اور یہ ناممکن ہے کہ آپ دو دفعہ فوت ہوں۔ (۲) باب کا مقصد یہ ہے کہ مومن موت سے قلید نہیں ہو جاتا بلکہ پاک رہتا ہے، لہٰذا اسے بوسہ دینا اور چھونا جائز ہے جبکہ بعض فقہاء میت کو پلید کہتےہیں لیکن یہ درست نہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: [المسلم لانجس حیا و الامیتا] ’’مومن زندہ ہو یا فوت شدہ، پلید نہیں ہوتا۔‘‘ (صحیح البخاري، الجنائز، باب غسل المیت ووضوئہ بالماء و السدر، بعد الحدیث: ۱۲۵۲، و مختصر صحیح البخاري، اللألباني، رقم الاثر: ۲۳۹) ہاں کافر مر جائیں تو پلید ہیں۔ (۳) میت پر رونا جائز ہے، واویلا، چیخ و پکار اور جاہلیت کی آہ و بکا درست نہیں۔