سنن النسائي - حدیث 1834

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَاب مَا يُلْقَى بِهِ المُؤْمِنُ مِنْ الْكَرَامَةِ عِنْدَ خُرُوجِ نَفْسِهِ صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا حُضِرَ الْمُؤْمِنُ أَتَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ بِحَرِيرَةٍ بَيْضَاءَ فَيَقُولُونَ اخْرُجِي رَاضِيَةً مَرْضِيًّا عَنْكِ إِلَى رَوْحِ اللَّهِ وَرَيْحَانٍ وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ فَتَخْرُجُ كَأَطْيَبِ رِيحِ الْمِسْكِ حَتَّى أَنَّهُ لَيُنَاوِلُهُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ بَابَ السَّمَاءِ فَيَقُولُونَ مَا أَطْيَبَ هَذِهِ الرِّيحَ الَّتِي جَاءَتْكُمْ مِنْ الْأَرْضِ فَيَأْتُونَ بِهِ أَرْوَاحَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَهُمْ أَشَدُّ فَرَحًا بِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ بِغَائِبِهِ يَقْدَمُ عَلَيْهِ فَيَسْأَلُونَهُ مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ مَاذَا فَعَلَ فُلَانٌ فَيَقُولُونَ دَعُوهُ فَإِنَّهُ كَانَ فِي غَمِّ الدُّنْيَا فَإِذَا قَالَ أَمَا أَتَاكُمْ قَالُوا ذُهِبَ بِهِ إِلَى أُمِّهِ الْهَاوِيَةِ وَإِنَّ الْكَافِرَ إِذَا احْتُضِرَ أَتَتْهُ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ بِمِسْحٍ فَيَقُولُونَ اخْرُجِي سَاخِطَةً مَسْخُوطًا عَلَيْكِ إِلَى عَذَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَتَخْرُجُ كَأَنْتَنِ رِيحِ جِيفَةٍ حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ بَابَ الْأَرْضِ فَيَقُولُونَ مَا أَنْتَنَ هَذِهِ الرِّيحَ حَتَّى يَأْتُونَ بِهِ أَرْوَاحَ الْكُفَّارِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1834

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل مومن کے ساتھ اسر کی روح نکلتے وقت عزت افزا کیا جاتاہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمای: ’’جب مومن کو موت آنے لگتی ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی لباس لے کر اس کے پاس آ جاتے ہیں اور کتے ہیں: اے مومن روح! نکل آ۔ تو اللہ تعالیٰ سے راضی، اللہ تعالیٰ تجھ سے راضی۔ اور چل اللہ کی رحمت و مہربانی کی طرف اور پہنچ ایسے رب کے پاس جو تجھ پر قطعا ناراض نہیں ہے۔ تو وہ انتہائی خوشبودار، پاکیزہ کستوری جیسی مہک کے ساتھ نکل آتی ہے حتی کہ فرشتے (خوشی اور سرور سے) اسے ایک دوسرے کو پکڑاتے (ہاتھوں ہاتھ لیتے) ہیں اور اسی طرح وہ اسے آسمان کے دروازے تک لے جاتے ہیں۔ آسمان والے فرشتے کہتے ہیں: کس قدر خوشبودار ہے یہ روح جو تم زمین سے لائے ہو!۔ پھر وہ اسے (پہلے سے فوت شدہ) مومنین کی روحوں کے پاس لے آتے ہیں۔ اللہ کی قسم! وہ اس کے آنے پراس قدر خوش ہوتے ہیں کہ تم اپنے کسی غائب شخص کے آنے پر اتنے خوش نہیں ہوتے، پھر وہ (پہلے مومن) اس سے پوچھتے ہیں: فلاں کا کیا حال ہے؟ فلاں کا کیا حال ہے؟ پھر وہ (آپس میں) کہتے ہیں: چھوڑو اسے وہ تو دنیا کے غم و فکر میں تھا۔ جب وہ روح کہتی ہے کہ کیا وہ تمھارے پاس نہیں آیا؟ (یعنی وہ تو کب کا مر چکا ہے) تو وہ کہتے ہیں: اوہو! اسے اس کے جہنمی ٹھکانے کی جانب سے لے جایا گیا ہے۔ (اس کے مقابلے میں) جب کافر کو موت آتی ہے تو عذاب کے فرشتے گندا بدبودار ٹاٹ لے کر اس کے پاس آ جاتے ہیں اور (غصے سے) کہتے ہیں: نکل ادھر، تو بھی ناراض اور تیرا اللہ بھی تجھ پر ناراض۔ چل اللہ عزوجل کے عذاب کی طرف۔ تو وہ انتہائی بدبودار مردار لاش کے بھبو کے ساتھ نکلتی ہے حتی کہ وہ اسے زمین کے دروازے پر لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں: کس قدر بدبودار ہے یہ! حتی کہ وہ اسے (پہلے سے مرے ہوئے) کافروں کی روحوں میں لے جاتے ہیں۔‘‘
تشریح : (۱) ’’ایک دوسرے کو پکڑاتے ہیں‘‘ جس طرح نومولود بچے کو اس کے رشتے دار بڑی خوشی کے ساتھ پکڑ پکڑ کر دیکھتے ہیں۔ معلوم ہوا روح ایک حقیقت ہے اور جسم سے الگ ایک چیز ہے۔ اس کا اپنا وجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ نظر نہیںآتی کیونکہ بہت لطیف ہے۔ اگر ہوا، باوجود اس جہان کی چیز ہونے کے نظر نہیں آتی مگر ایک حقیقت ہے تو روح کے نظر نہ آنےپرکیا تعجب ہے؟ (۲) ’’چھوڑو اس کو‘‘ اس سے مراد نئی روح بھی ہوسکتی ہے کہ تم اسے زیادہ سوال و جواب سے پریشان نہ کرو۔ ابھی وہ دنیا کے غم میں ہے۔ (۳) مومن آدمی کی موت کے وقت رحمت کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اسے بشارتیں سناتے ہیں۔ (۱) ’’ایک دوسرے کو پکڑاتے ہیں‘‘ جس طرح نومولود بچے کو اس کے رشتے دار بڑی خوشی کے ساتھ پکڑ پکڑ کر دیکھتے ہیں۔ معلوم ہوا روح ایک حقیقت ہے اور جسم سے الگ ایک چیز ہے۔ اس کا اپنا وجود ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ نظر نہیںآتی کیونکہ بہت لطیف ہے۔ اگر ہوا، باوجود اس جہان کی چیز ہونے کے نظر نہیں آتی مگر ایک حقیقت ہے تو روح کے نظر نہ آنےپرکیا تعجب ہے؟ (۲) ’’چھوڑو اس کو‘‘ اس سے مراد نئی روح بھی ہوسکتی ہے کہ تم اسے زیادہ سوال و جواب سے پریشان نہ کرو۔ ابھی وہ دنیا کے غم میں ہے۔ (۳) مومن آدمی کی موت کے وقت رحمت کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اسے بشارتیں سناتے ہیں۔