سنن النسائي - حدیث 1833

كِتَابُ الْجَنَائِزِ الْمَوْتُ بِغَيْرِ مَوْلِدِهِ حسن أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ مَاتَ رَجُلٌ بِالْمَدِينَةِ مِمَّنْ وُلِدَ بِهَا فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا لَيْتَهُ مَاتَ بِغَيْرِ مَوْلِدِهِ قَالُوا وَلِمَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا مَاتَ بِغَيْرِ مَوْلِدِهِ قِيسَ لَهُ مِنْ مَوْلِدِهِ إِلَى مُنْقَطَعِ أَثَرِهِ فِي الْجَنَّةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1833

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل اپنی پیدائش کےمقام سے باہرفوت ہوجانا حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں ایک آدمی فوت ہوگیا جو پیدا بھی ویں ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جنازہ پڑھا، پھر فرمایا: ’’کاش کہ یہ اپنی پیدائش والی جگہ سے باہر فوت ہوتا۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیوں؟ آپ نے فرمایا: ’’آدمی جب اپنی پیدائش کی جگہ سے دور فوت ہوتا ہے تو جنت میں اسے اس کی پیدائش گاہ سے موت کی جگہ تک کا فاصلہ ماپ کر جنت دی جاتی ہے۔
تشریح : یہ عام بات ہے۔ باقی رہا مدینہ منورہ میں فوت ہونا تو یہ بہت بڑی سعادت ہے جو اس بیان شدہ فضیلت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب نہیں کہ یہ شخص مدینہ منورہ سے باہر فوت ہوتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کاش یہ مدینہ کا پیدائشی نہ ہوتا۔ کسی اور جگہ پیدا ہوکر یہاں ہجرت کرتا اور پھر مدینہ منورہ میں فوت ہوتا کیونکہ مدینے میں وفات کی فضیلت تو احادیث میں وارد ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: ۳۱۱۲، و مسند أحمد: ۷۴/۲) اور یہ مومن کے لیے بڑی سعادت ہے۔ یاد رہے کہ ہر سعادت کے حصول کے لیے صحیح ایمان شرط ہے ورنہ ہر چیز بے کار ہے۔ یہ عام بات ہے۔ باقی رہا مدینہ منورہ میں فوت ہونا تو یہ بہت بڑی سعادت ہے جو اس بیان شدہ فضیلت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب نہیں کہ یہ شخص مدینہ منورہ سے باہر فوت ہوتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کاش یہ مدینہ کا پیدائشی نہ ہوتا۔ کسی اور جگہ پیدا ہوکر یہاں ہجرت کرتا اور پھر مدینہ منورہ میں فوت ہوتا کیونکہ مدینے میں وفات کی فضیلت تو احادیث میں وارد ہے۔ دیکھیے: (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: ۳۱۱۲، و مسند أحمد: ۷۴/۲) اور یہ مومن کے لیے بڑی سعادت ہے۔ یاد رہے کہ ہر سعادت کے حصول کے لیے صحیح ایمان شرط ہے ورنہ ہر چیز بے کار ہے۔