سنن النسائي - حدیث 1827

كِتَابُ الْجَنَائِزِ بَاب تَلْقِينِ الْمَيِّتِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ قَالَ حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُمَارَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ ح وَأَنْبَأَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1827

کتاب: جنازے سے متعلق احکام و مسائل قریب الوفات شخص کوکلمہ طیبہ کی تلقین کرنی چاہئے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے قریب الموت اشخاص کو [لا إلا إلا اللہ] پڑھنے کی تلقین کرو۔‘‘
تشریح : (۱) تلقین سے مراد یہ ہے کہ اسے کلمہ طیبہ پڑھنے کا کہا جائے، دھیمے لب و لہجے میں اس کی ترغیب دی جائے، یا صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر کم از کم اس کے پاس بیٹھ کر کلمہ طیبہ پڑھا جائے تاکہ سن کر وہ بیھ پڑھے لیکن اسے اصرار کے ساتھ کلمہ پڑھنے کو نہ کہا جائے کہ کہیں وہ اکتاہٹ اور تکلیف و گھبراہٹ کی بنا پر انکار نہ کر دے اور جب وہ ایک دفعہ کلمہ طیبہ پڑھ لے تو پھر تلقین نہ کی جائے، ہاں اگر بعد میں وہ کوئی دنیوی کلام کرے تو پھر تلقین کی جائے۔ مقصد یہ ہے کہ موت سے پہلے آخری بات کلمہ طیبہ ہو۔ (۲) بعض لوگ میت کو دفنانے کے بعد قبر پر اسے تلقین کرتے ہیں تاکہ وہ فرشتوں کو کلمہ طیبہ کے ساتھ جواب دے سکے مگر یہ معنی درست نہیں، نہ یہ صحابہ کا معمول تھا۔ اس بارے میں ایک ضعیف روایت بھی وارد ہے۔ سلف کے عمل کے خلاف ضعیف روایت پر عمل جائز نہیں۔ (۱) تلقین سے مراد یہ ہے کہ اسے کلمہ طیبہ پڑھنے کا کہا جائے، دھیمے لب و لہجے میں اس کی ترغیب دی جائے، یا صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر کم از کم اس کے پاس بیٹھ کر کلمہ طیبہ پڑھا جائے تاکہ سن کر وہ بیھ پڑھے لیکن اسے اصرار کے ساتھ کلمہ پڑھنے کو نہ کہا جائے کہ کہیں وہ اکتاہٹ اور تکلیف و گھبراہٹ کی بنا پر انکار نہ کر دے اور جب وہ ایک دفعہ کلمہ طیبہ پڑھ لے تو پھر تلقین نہ کی جائے، ہاں اگر بعد میں وہ کوئی دنیوی کلام کرے تو پھر تلقین کی جائے۔ مقصد یہ ہے کہ موت سے پہلے آخری بات کلمہ طیبہ ہو۔ (۲) بعض لوگ میت کو دفنانے کے بعد قبر پر اسے تلقین کرتے ہیں تاکہ وہ فرشتوں کو کلمہ طیبہ کے ساتھ جواب دے سکے مگر یہ معنی درست نہیں، نہ یہ صحابہ کا معمول تھا۔ اس بارے میں ایک ضعیف روایت بھی وارد ہے۔ سلف کے عمل کے خلاف ضعیف روایت پر عمل جائز نہیں۔