سنن النسائي - حدیث 1818

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ الِاخْتِلَافُ عَلَى إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الشُّعَيْثِيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّى أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعًا بَعْدَهَا لَمْ تَمَسَّهُ النَّارُ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هَذَا خَطَأٌ وَالصَّوَابُ حَدِيثُ مَرْوَانَ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1818

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل اسماعیل بن ابوخالدکی بابت اختلاف حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص ظہر سے پہلے چار اورظہر کے بعد چار رکعات (پابندی سے) پڑھے گا، اسے آگ نہ چھوئے گی۔‘‘ امام ابو عبدالرحمن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث غلط ہے۔ صحیح حدیث مروان کی ہے جو وہ سعید بن عبدالعزیز سے بیان کرتے ہیں۔
تشریح : (۱) بعض محققین نے کہا ہے کہ یہ الفاظ حدیث نمبر ۱۸۱۷ کے بعد ہونے چاہیں، یعنی حدیث نمبر ۱۸۱۷ میں محمد بن ابوسفیان کا ذکر درست نہیں ہے، ان کے بجائے عنبسہ بن ابی سفیان درست ہے جیسا کہ مروان کی حدیث (نمبر ۱۸۱۵، ۱۸۱۶) میں ہے۔ اگر یہ الفاظ یہیں درست ہوں (یعنی حدیث نمبر ۱۸۱۸ کے بعد) تو، پھر یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کی مذکورہ سند (عبداللہ شعیثی عن عنبسہ) کے بجائے مروان والی حدیث کی سند (مکحول عن عنبسہ) ذکر ہونی چاہیے۔ واللہ أعلم۔ (۲) امام نسائی رحمہ اللہ نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی مختلف (۲۴) سندیں ذکر کی ہیں۔ بعض راویوں کی غلطیاں ظاہر کرنے کے لیے ان کو یہ طویل تکرار کرنی پڑی، مثلاً: بعض راویوں نے اسے بجائے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کردیا، بعض نے حرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کر دیا۔ لیکن یہ ان کی غلطی ہے۔ یہ روایت حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے ہے۔ اسی طرح صحیح یہ ہے ککہ یہ روایت مرفوع ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ بعض راویوں نے اسے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا اپنا قول بیان کردیا۔ اس کے علاوہ بھی سندوں میں کچھ اختلافات ہیں جو تمام اسانید کو بغور دیکھنے سے سمجھ میں آسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں فائدہ حدیث نمبر ۱۷۸۰ مدنظر رکھا جائے تاکہ کچھ غلط فہمیوں سے بچاؤ ہوسکے۔ (۳) سنن مؤکدہ کی پابندی کے ساتھ ادائیگی سے جنت کا دخول اولیں یا آگ کی حرمت مشروط ہے کہ اس نے کوئی ایسا گناہ نہ کیا ہو جو ناقابل معافی ہو، مثلاً: شرک۔ اسی طرح حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد بھی اتنی نیکیاں بچ جائیں جو اولیں طور پر جنت میں لے جائیں، نیز یہ ثواب اس کام کا انفرادی ثواب ہے، جب ساتھ گناہ بھی ہوں تو ظاہر ہے ان کی مقررہ سزا سے بھی مفر نہیں۔ مجموعی طور پر ثواب غالب آ جائے یا عذاب، یہ الگ باتہوگی۔ بعض گناہ ایسے ہیں جن پر اللہ تعالی ٰنے قسم کھا رکھی ہے کہ ضرور جہنم میں لے جائیں گے، لہٰذا آخری فیصلہ تمام نیکیوں اور برائیوں کی جزا و سزا کو ملانے ہی سے ہوگا، نیز کسی ایک حدیث کو باقی احادیث پر غالب نہیں کیا جا سکتا ببلکہ تمام احادیث کو ملا کر ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ (۴) آخری احادیث میں صرف ظہر سے پہلے چار رکعات اور ظہر کے بعد چار رکعات ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ گویا یہ حدیث پہلی احادیث سے مختلف ہے جن میں بارہ رکعات کا ذکر ہے۔ بارہ رکعات سنن پڑھنے پر دخول جنت کی ضمانت دی گئی ہے اور ظہر کی نماز سے پہلے اور بعد چار رکعات پڑھنے پر آگ کی حرمت کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ دونوں الگ الگ معانی ہیں۔ (۵) عشاء اور عصر کی نمازوں سے قبل چار، چار رکعات کا ذکر بھی بعض روایات میں ہے اور ان کی فضیلت بھی وارد ہے جبکہ عشاء سے قبل چار رکعات سنت کی روایت ضعیف ہے۔ عصر سے قبل چار رکعات کی ادائیگی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی دعا ہے۔ غرض یہ چار رکعات ضروری یا مؤکد نہیں صرف مستحب ہیں۔ واللہ أعلم۔ (۶) امام نسائی رحمہ اللہ نے تو بارہ رکعات والی روایات ہی ذکر فرمائی ہیں۔ بعض روایات میں بارہ کے بجائے دس رکعات پر یہی ثواب بیان کیا گیا ہے۔ ان میں ظہر سے پہلے چار کے بجائے دو رکعات کا ذکر ہے۔ گویا کبھی کبھار اگر دو ہی پر اکتفا کر لیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں، مگر معمول چار رکعات ہی ہونا چاہیے۔ (۱) بعض محققین نے کہا ہے کہ یہ الفاظ حدیث نمبر ۱۸۱۷ کے بعد ہونے چاہیں، یعنی حدیث نمبر ۱۸۱۷ میں محمد بن ابوسفیان کا ذکر درست نہیں ہے، ان کے بجائے عنبسہ بن ابی سفیان درست ہے جیسا کہ مروان کی حدیث (نمبر ۱۸۱۵، ۱۸۱۶) میں ہے۔ اگر یہ الفاظ یہیں درست ہوں (یعنی حدیث نمبر ۱۸۱۸ کے بعد) تو، پھر یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کی مذکورہ سند (عبداللہ شعیثی عن عنبسہ) کے بجائے مروان والی حدیث کی سند (مکحول عن عنبسہ) ذکر ہونی چاہیے۔ واللہ أعلم۔ (۲) امام نسائی رحمہ اللہ نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی روایت کی مختلف (۲۴) سندیں ذکر کی ہیں۔ بعض راویوں کی غلطیاں ظاہر کرنے کے لیے ان کو یہ طویل تکرار کرنی پڑی، مثلاً: بعض راویوں نے اسے بجائے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کردیا، بعض نے حرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کر دیا۔ لیکن یہ ان کی غلطی ہے۔ یہ روایت حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے ہے۔ اسی طرح صحیح یہ ہے ککہ یہ روایت مرفوع ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ بعض راویوں نے اسے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا اپنا قول بیان کردیا۔ اس کے علاوہ بھی سندوں میں کچھ اختلافات ہیں جو تمام اسانید کو بغور دیکھنے سے سمجھ میں آسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں فائدہ حدیث نمبر ۱۷۸۰ مدنظر رکھا جائے تاکہ کچھ غلط فہمیوں سے بچاؤ ہوسکے۔ (۳) سنن مؤکدہ کی پابندی کے ساتھ ادائیگی سے جنت کا دخول اولیں یا آگ کی حرمت مشروط ہے کہ اس نے کوئی ایسا گناہ نہ کیا ہو جو ناقابل معافی ہو، مثلاً: شرک۔ اسی طرح حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد بھی اتنی نیکیاں بچ جائیں جو اولیں طور پر جنت میں لے جائیں، نیز یہ ثواب اس کام کا انفرادی ثواب ہے، جب ساتھ گناہ بھی ہوں تو ظاہر ہے ان کی مقررہ سزا سے بھی مفر نہیں۔ مجموعی طور پر ثواب غالب آ جائے یا عذاب، یہ الگ باتہوگی۔ بعض گناہ ایسے ہیں جن پر اللہ تعالی ٰنے قسم کھا رکھی ہے کہ ضرور جہنم میں لے جائیں گے، لہٰذا آخری فیصلہ تمام نیکیوں اور برائیوں کی جزا و سزا کو ملانے ہی سے ہوگا، نیز کسی ایک حدیث کو باقی احادیث پر غالب نہیں کیا جا سکتا ببلکہ تمام احادیث کو ملا کر ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ (۴) آخری احادیث میں صرف ظہر سے پہلے چار رکعات اور ظہر کے بعد چار رکعات ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ گویا یہ حدیث پہلی احادیث سے مختلف ہے جن میں بارہ رکعات کا ذکر ہے۔ بارہ رکعات سنن پڑھنے پر دخول جنت کی ضمانت دی گئی ہے اور ظہر کی نماز سے پہلے اور بعد چار رکعات پڑھنے پر آگ کی حرمت کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ دونوں الگ الگ معانی ہیں۔ (۵) عشاء اور عصر کی نمازوں سے قبل چار، چار رکعات کا ذکر بھی بعض روایات میں ہے اور ان کی فضیلت بھی وارد ہے جبکہ عشاء سے قبل چار رکعات سنت کی روایت ضعیف ہے۔ عصر سے قبل چار رکعات کی ادائیگی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی دعا ہے۔ غرض یہ چار رکعات ضروری یا مؤکد نہیں صرف مستحب ہیں۔ واللہ أعلم۔ (۶) امام نسائی رحمہ اللہ نے تو بارہ رکعات والی روایات ہی ذکر فرمائی ہیں۔ بعض روایات میں بارہ کے بجائے دس رکعات پر یہی ثواب بیان کیا گیا ہے۔ ان میں ظہر سے پہلے چار کے بجائے دو رکعات کا ذکر ہے۔ گویا کبھی کبھار اگر دو ہی پر اکتفا کر لیا جائے تو بھی کوئی حرج نہیں، مگر معمول چار رکعات ہی ہونا چاہیے۔