سنن النسائي - حدیث 1800

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب ثَوَابِ مَنْ صَلَّى فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً سِوَى الْمَكْتُوبَةِ وَذِكْرِ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ فِيهِ لِخَبَرِ أُمِّ حَيبَةَ فِي ذَلِكَ وَالِاخْتِلَافِ عَلَى عَطَاءٍ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ قَالَ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّائِفِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ قَدِمْتُ الطَّائِفَ فَدَخَلْتُ عَلَى عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ وَهُوَ بِالْمَوْتِ فَرَأَيْتُ مِنْهُ جَزَعًا فَقُلْتُ إِنَّكَ عَلَى خَيْرٍ فَقَالَ أَخْبَرَتْنِي أُخْتِي أُمُّ حَبِيبَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالنَّهَارِ أَوْ بِاللَّيْلِ بَنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ خَالَفَهُمْ أَبُو يُونُسَ الْقُشَيْرِيُّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1800

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل جوآدمی دن اور رات میں فرض نمازوں کےعلاوہ بارہ رکعات سنت پڑھے ‘ اسے کییا ثواب ملے گااور اس بارے میں حصرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کرنے والوں کااختلا ف نیزحضرت عطاءکے شاگردو ں کااختلاف حضرت یعلی بن امیہ فرماتے ہیں کہ میں طائف میں آیا تو حضرت عنبسہ بن ابوسفیان کے پاس گیا جبکہ وہ قریب الموت تھے۔ میں نے ان میں گھبراہٹ محسوس کی تو میں نے کہا: (مت گھبرائیں) آپ نیکی پر قائم ہیں (یا ان شاء اللہ آپ سے اچھا سلوک ہوگا)۔ انھوں نے فرمایا: مجھے میری ہمشیرہ محترمہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص دن رات میں بارہ رکعات (سنن مؤکدہ) پڑھے گا، الل عزوجل اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دے گا۔‘‘ ابو یونس قشیری نے ان سب کی مخالفت کی ہے
تشریح : (۱) ابو یونس قشیری حضرت عطاء کے شاگرد ہیں۔ انھوں نے حضرت عطاء بن ابی رباح کا استاد شہر بن حوشب ذکر کرکے حضرت عطاء کے دوسرے شاگردوں کی مخالفت کی ہے جن کی روایات ابھی گزری ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ ابو یونس نے روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا۔ گویا روایت مرفوع کے بجائے موقوف ذکر کی جبکہ دوسرے شاگرد اسے مرفوع بیان کرتے ہیں۔ (۲) یعنی و جنت میں داخل ہوگا ورنہ گھر کا کیا فائدہ؟ نیز امید ہے کہ اولیں طور پر داخل ہوگا ورنہ مطلق دخول تو محق ایمان کی بنا پر بھی ہے۔ واللہ أعلم۔ (۱) ابو یونس قشیری حضرت عطاء کے شاگرد ہیں۔ انھوں نے حضرت عطاء بن ابی رباح کا استاد شہر بن حوشب ذکر کرکے حضرت عطاء کے دوسرے شاگردوں کی مخالفت کی ہے جن کی روایات ابھی گزری ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ ابو یونس نے روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا۔ گویا روایت مرفوع کے بجائے موقوف ذکر کی جبکہ دوسرے شاگرد اسے مرفوع بیان کرتے ہیں۔ (۲) یعنی و جنت میں داخل ہوگا ورنہ گھر کا کیا فائدہ؟ نیز امید ہے کہ اولیں طور پر داخل ہوگا ورنہ مطلق دخول تو محق ایمان کی بنا پر بھی ہے۔ واللہ أعلم۔