ذِكْرُ الْفِطْرَةِ الرُّخْصَةُ فِي تَرْكِ ذَلِكَ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ قَالَ أَنْبَأَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ كُنْتُ أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْتَهَى إِلَى سُبَاطَةِ قَوْمٍ فَبَالَ قَائِمًا فَتَنَحَّيْتُ عَنْهُ فَدَعَانِي وَكُنْتُ عِنْدَ عَقِبَيْهِ حَتَّى فَرَغَ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ
کتاب: امور فطرت کا بیان
دور نہ جانے کی رخصت
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، انھوں نے کہا: میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ ایک قوم کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے پاس پہنچے تو آپ نے کھڑے کھڑے پیشاب کیا۔ (آپ کے پیشاب کرنے سے پہلے) میں ایک طرف ہٹا تو آپ نے مجھے بلایا۔ میں آپ کی ایڑیوں کے پاس (دوسری طرف منہ کرکے) کھڑا رہا حتی کہ آپ فارغ ہو گئے۔ پھر آپ نے وضو فرمایا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔
تشریح :
(۱) یہ روایت مختصر ہے جس سے بعض غلط فہمیوں کا امکان ہے، اس لیے ترجمے میں قوسین کے ذریعے سے وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑے کے ڈھیر پر پیشاب کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حسب معمول آپ سے دور ہونے لگے، لیکن چونکہ آپ کو رف پیشاب کی حاجت تھی جس میں آواز یا بدبو کا امکان نہ تھا (خصوصاً قیام کی حالت میں) اس لیے آپ نے انھیں کہا: ’’اے حذیفہ! مجھے اوٹ کرو۔‘‘ وہ آپ سے قریب پچھلی طرف دوسری جانب منہ کرکے کھڑے ہوگئے۔ (ایڑیوں کے قریب سے مراد مطلق قرب ہے نہ کہ حقیقتاً ایڑیوں سے ایڑیاں ملا کر)۔ اس طرح آپ کی طرف نظر کا امکان نہ رہا اور پورا پردہ ہوگیا۔ (۲) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادت بیٹھ کر پیشاب کرنے ہی کی تھی مگر مذکورہ واقعہ میں آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔ اس کی مختلف عقلی و نقلی توجیہات کی گئی ہیں، مثلاً: ڈھیر کی گندگی سے بچنے کے لیے کیونکہ ڈھیر پر بیٹھنے کی صورت میں کپڑوں یا جسم کو گندگی لگ سکتی تھی یا اس لیے کہ پیشاب کی دھار دور گرے۔ بیٹھنے کی صورت میں پیشاب قریب گرتا اور واپس پاؤں کی طرف آتا، نیز چھینٹے بھی پڑتے یا گھٹنے میں تکلیف کی وجہ سے بیٹھنا مشکل تھا جیسا کہ بیہقی کی ایک ضعیف روایت میں ہے۔ (السنن الکبریٰ، للبیھقی: ۱۰۱/۱) یا کمر درد کے علاج کے لیے جیسا کہ اطباء کا خیال تھا۔ بہرحال مذکورہ توجیہات کی روشنی میں عمومی رائے یہی ہے کہ آپ کے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ان میں سے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تھی، لیکن تحقیق یہ ہے کہ ان مذکورہ وجوہ میں سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی ایک وجہ بھی بسند صحیح ثابت نہیں، اس لیے اس کے مقابلے میں ایک دوسری رائے بھی ہے جسے امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ نے اختیار کیا اور وہ یہ ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب صرف بیان جواز کے لیے کیا ہے جبکہ آپ کی عام عادت بیٹھ کر ہی پیشاب کرنے کی تھی۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، اطھارۃ، حدیث: ۲۷۴، مع شرح النووي) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں، [والا ظھر انہ فعل ذلک لبیان الجواز……] ’’زیادہ واضح بات یہ ہے کہ آپ کا یہ عمل صرف بیان جواز کے لیے تھا……‘‘ (فتح الباري: ۴۳۰/۱، طبع دارالسلام) نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارے میں منقول توجیہات کو گویا قابل حجت نہیں سمجھا، بہرحال اگر کوئی شخص ضرورت کے پیش نظر یا کبھی کبھار بلا ضرورت ہی جواز کو پیش نظر رکھتے ہوئے کھڑے ہوکر سنت پر عمل کی خاطر پیشاب کر لیتا ہے تو ان شاء اللہ جائز ہوگا۔ واللہ أعلم۔ (۳) باب کا مقصد یہ ہے کہ اگر آواز یا بدبو کا خدشہ نہ ہو تو پیشاب کے لیے صرف پردہ کافی ہے، دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
(۱) یہ روایت مختصر ہے جس سے بعض غلط فہمیوں کا امکان ہے، اس لیے ترجمے میں قوسین کے ذریعے سے وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑے کے ڈھیر پر پیشاب کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حسب معمول آپ سے دور ہونے لگے، لیکن چونکہ آپ کو رف پیشاب کی حاجت تھی جس میں آواز یا بدبو کا امکان نہ تھا (خصوصاً قیام کی حالت میں) اس لیے آپ نے انھیں کہا: ’’اے حذیفہ! مجھے اوٹ کرو۔‘‘ وہ آپ سے قریب پچھلی طرف دوسری جانب منہ کرکے کھڑے ہوگئے۔ (ایڑیوں کے قریب سے مراد مطلق قرب ہے نہ کہ حقیقتاً ایڑیوں سے ایڑیاں ملا کر)۔ اس طرح آپ کی طرف نظر کا امکان نہ رہا اور پورا پردہ ہوگیا۔ (۲) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادت بیٹھ کر پیشاب کرنے ہی کی تھی مگر مذکورہ واقعہ میں آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔ اس کی مختلف عقلی و نقلی توجیہات کی گئی ہیں، مثلاً: ڈھیر کی گندگی سے بچنے کے لیے کیونکہ ڈھیر پر بیٹھنے کی صورت میں کپڑوں یا جسم کو گندگی لگ سکتی تھی یا اس لیے کہ پیشاب کی دھار دور گرے۔ بیٹھنے کی صورت میں پیشاب قریب گرتا اور واپس پاؤں کی طرف آتا، نیز چھینٹے بھی پڑتے یا گھٹنے میں تکلیف کی وجہ سے بیٹھنا مشکل تھا جیسا کہ بیہقی کی ایک ضعیف روایت میں ہے۔ (السنن الکبریٰ، للبیھقی: ۱۰۱/۱) یا کمر درد کے علاج کے لیے جیسا کہ اطباء کا خیال تھا۔ بہرحال مذکورہ توجیہات کی روشنی میں عمومی رائے یہی ہے کہ آپ کے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ان میں سے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تھی، لیکن تحقیق یہ ہے کہ ان مذکورہ وجوہ میں سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی ایک وجہ بھی بسند صحیح ثابت نہیں، اس لیے اس کے مقابلے میں ایک دوسری رائے بھی ہے جسے امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ نے اختیار کیا اور وہ یہ ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب صرف بیان جواز کے لیے کیا ہے جبکہ آپ کی عام عادت بیٹھ کر ہی پیشاب کرنے کی تھی۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، اطھارۃ، حدیث: ۲۷۴، مع شرح النووي) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں، [والا ظھر انہ فعل ذلک لبیان الجواز……] ’’زیادہ واضح بات یہ ہے کہ آپ کا یہ عمل صرف بیان جواز کے لیے تھا……‘‘ (فتح الباري: ۴۳۰/۱، طبع دارالسلام) نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارے میں منقول توجیہات کو گویا قابل حجت نہیں سمجھا، بہرحال اگر کوئی شخص ضرورت کے پیش نظر یا کبھی کبھار بلا ضرورت ہی جواز کو پیش نظر رکھتے ہوئے کھڑے ہوکر سنت پر عمل کی خاطر پیشاب کر لیتا ہے تو ان شاء اللہ جائز ہوگا۔ واللہ أعلم۔ (۳) باب کا مقصد یہ ہے کہ اگر آواز یا بدبو کا خدشہ نہ ہو تو پیشاب کے لیے صرف پردہ کافی ہے، دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔