سنن النسائي - حدیث 1793

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب مَتَى يَقْضِي مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِهِ مِنْ اللَّيْلِ صحيح موقوف أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مَالِكٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ مَنْ فَاتَهُ حِزْبُهُ مِنْ اللَّيْلِ فَقَرَأَهُ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ إِلَى صَلَاةِ الظُّهْرِ فَإِنَّهُ لَمْ يَفُتْهُ أَوْ كَأَنَّهُ أَدْرَكَهُ رَوَاهُ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ مَوْقُوفًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1793

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل جو شخص رات کواپنی مقررہ نفل نماز تہجد سےسویا رہا تو وہ کب اس کی ادائیگی کرے؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص سے رات کی مقررہ (نفل) نماز رہ گئی اور اس نے زوال شمس سے لے کر ظہر کی نماز تک پڑھ لی تو یوں سمجھو کہ وہ نماز اس سے نہیں رہی بلکہ گویا اس نے بروقت پڑھ لی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بیٹے حمید نے اسے موقوف بیان کیا ہے۔
تشریح : (۱) مقصود یہ ہے کہ آئندہ روایت میں یہی الفاظ حمید کی طرف منسو ب ہیں۔ حمید تابعی ہیں اور تابعی کے قول و فعل کو مقطوع کہا جاتا ہے، گویا یہاں موقوف سے مقطوع مراد ہے۔ (۲) ہمارے نسخے کے مطابق عبارت کا بظاہر وہی مفہوم ہے جو ذکر ہوا۔ ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: (۱۷۸/۱۸) کے نسخے میں حمید بن عبدالرحمٰن حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، اگر یہ اضافہ درست ہے تو پھر موقوف اپنے اصطلاحی معنی میں مستعمل ہے۔ واللہ أعلم۔ (۳) ضروری نہیں نماز ہی مراد ہو بلکہ قرآن مجید یا ذکر و درود بھی مراد ہو سکتا ہے اور اس کا حکم بھی یہی ہے۔ (۴) اس روایت میں زوال شمس کا لفظ کسی راوی کی غلطی ہے، طوع شمس چاہیے جیسے پہلی روایات میں ہے۔ (۵) باب کے تحت ان تین رووایات میں فرق یہ ہے کہ پہلی ااور دوسری روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے اور آخرت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اور آئندہ روایت صحابی کی بجائے تابعی (حمید) کی طرف منسوب ہے۔ پہلی کو مرفوع دوسری کو موقوف اور تیسری کو مقطوع کہتے ہیں۔ (۱) مقصود یہ ہے کہ آئندہ روایت میں یہی الفاظ حمید کی طرف منسو ب ہیں۔ حمید تابعی ہیں اور تابعی کے قول و فعل کو مقطوع کہا جاتا ہے، گویا یہاں موقوف سے مقطوع مراد ہے۔ (۲) ہمارے نسخے کے مطابق عبارت کا بظاہر وہی مفہوم ہے جو ذکر ہوا۔ ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: (۱۷۸/۱۸) کے نسخے میں حمید بن عبدالرحمٰن حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں، اگر یہ اضافہ درست ہے تو پھر موقوف اپنے اصطلاحی معنی میں مستعمل ہے۔ واللہ أعلم۔ (۳) ضروری نہیں نماز ہی مراد ہو بلکہ قرآن مجید یا ذکر و درود بھی مراد ہو سکتا ہے اور اس کا حکم بھی یہی ہے۔ (۴) اس روایت میں زوال شمس کا لفظ کسی راوی کی غلطی ہے، طوع شمس چاہیے جیسے پہلی روایات میں ہے۔ (۵) باب کے تحت ان تین رووایات میں فرق یہ ہے کہ پہلی ااور دوسری روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے اور آخرت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اور آئندہ روایت صحابی کی بجائے تابعی (حمید) کی طرف منسوب ہے۔ پہلی کو مرفوع دوسری کو موقوف اور تیسری کو مقطوع کہتے ہیں۔