سنن النسائي - حدیث 1788

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب مَنْ أَتَى فِرَاشَهُ وَهُوَ يَنْوِي الْقِيَامَ فَنَامَ صحيح أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ زَائِدَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَتَى فِرَاشَهُ وَهُوَ يَنْوِي أَنْ يَقُومَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ حَتَّى أَصْبَحَ كُتِبَ لَهُ مَا نَوَى وَكَانَ نَوْمُهُ صَدَقَةً عَلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ خَالَفَهُ سُفْيَانُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1788

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل جوآدمی سوتے وقت قیام الیل کی نیت رکھتا ہو مگر (گہری نیند) سویا رہا حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور وہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے، آپ نے فرمایا: ’’جو آدمی بستر پر لیٹتے وقت نیت رکھتا ہو کہ رات کو (نماز تہجد کے لیے) اٹھے گا لیکن اسےگہری نیند آگئی اور وہ صبح تک سویا رہا تو اس کے لیے اس نماز کا ثواب لکھا جائے گا جس کی اس نے نیت کی اور اس کی نیند اس کے رب عزوجل کی طرف سے اس پر نوازش ہوگی۔‘‘ سفیان نے اس روایت میں حبیب بن ابی ثابت کی مخالفت کی ہے۔
تشریح : حبیب نے یہ روایت مرفوع (فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) بیان کی تھی جبکہ سفیان اسے موقوف (صحابی کا فرمان) بیان کرتے ہیں۔ دوسرے سفیان یہ روایت شک کے ساتھ بیان کرتے ہیں، نیز سنن نسائی کے تمام نسخوں میں عن أبي ذر و أبي الدرداء ہے۔ یہ سند میں تصحیف ہے۔ درست بجائے واو کے او ہے، یعنی شک کے ساتھ، جیسا کہ السنن الکبریٰ للنسائی میں ہے: (۴۵۷/۱) سنن کبریٰ میں سفیان ثوری کے ساتھ سفیان بن عیینہ بھی ہیں، گویا دونوں ہی حبیب بن ابی ثابت کی مذکورہ مخالفات میں شریک ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۱۷۱/۱۸، ۱۷۲) یہ وضاحت تو سندی اختلاف کی تھی۔ رہی صحت حدیث تو بلاشک متن حدیث قابل حجت ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق یہ روایت موقوفاً أصح ہے، لیکن چونکہ اس میں راوی کے اجتہاد اور رائے کا دخل نہیں، اس لیے حکماً مرفوع ہے، نیز اس کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (إرواء الغلیل الألبانی، رقم الحدیث: ۴۵۴) حبیب نے یہ روایت مرفوع (فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) بیان کی تھی جبکہ سفیان اسے موقوف (صحابی کا فرمان) بیان کرتے ہیں۔ دوسرے سفیان یہ روایت شک کے ساتھ بیان کرتے ہیں، نیز سنن نسائی کے تمام نسخوں میں عن أبي ذر و أبي الدرداء ہے۔ یہ سند میں تصحیف ہے۔ درست بجائے واو کے او ہے، یعنی شک کے ساتھ، جیسا کہ السنن الکبریٰ للنسائی میں ہے: (۴۵۷/۱) سنن کبریٰ میں سفیان ثوری کے ساتھ سفیان بن عیینہ بھی ہیں، گویا دونوں ہی حبیب بن ابی ثابت کی مذکورہ مخالفات میں شریک ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۱۷۱/۱۸، ۱۷۲) یہ وضاحت تو سندی اختلاف کی تھی۔ رہی صحت حدیث تو بلاشک متن حدیث قابل حجت ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق یہ روایت موقوفاً أصح ہے، لیکن چونکہ اس میں راوی کے اجتہاد اور رائے کا دخل نہیں، اس لیے حکماً مرفوع ہے، نیز اس کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (إرواء الغلیل الألبانی، رقم الحدیث: ۴۵۴)