سنن النسائي - حدیث 1780

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب وَقْتِ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ وَذِكْرِ الِاخْتِلَافِ عَلَى نَافِعٍ صحيح أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَخْبَرَتْنِي حَفْصَةُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَضَاءَ لَهُ الْفَجْرُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1780

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل فجر کی دورکعت( سنت )کا (مسنون )وقت اور اس روایت میں نافع سے اختلاف حضر ت حفصہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ جب فجر روشن ہوجاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تشریح : (۱)حضر ت حفصہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا یہ صبر آزما تکرار (۱۵دفعہ) سند کے کچھ اختلافات ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ محدثین کے لیے یہ چیز بہت اہم اور معلومات افزا ہوتی ہے اگرچہ عام آدمی اسے بے فائدہ سمجھتا ہے۔ سند کے اختلافات سندیں دیکھ کر معلوم ہوسکتے ہیں۔یاد رہے اس اختلاف سے حدیث کی حیثیت مجروح نہیں ہوتی کیونکہ حدیث صحیح سند سے محفوظ ہوتی ہے۔ تکرار کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بعض دوسرے ضعیف راویوں نے سند کے بیان میں جو غلطیاں کی ہیں، وہ واضح ہوجائیں۔ ان کی غلطی سے اصل اور صحیح سند مجروح نہیں ہوتی، لہٰذا عوام الناس کو یہ اختلاف دیکھ کر پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ہر تکرار میں یہ چیز مدنظر رہے۔ (۲)یہ باب اور مسئلہ چند ابواب قبل گزر چکا ہے۔ یہاں دوبارہ اس باب کا ذکر صرف مذکورہ حدیث کی سند کا اختلاف ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ (۱)حضر ت حفصہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا یہ صبر آزما تکرار (۱۵دفعہ) سند کے کچھ اختلافات ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ محدثین کے لیے یہ چیز بہت اہم اور معلومات افزا ہوتی ہے اگرچہ عام آدمی اسے بے فائدہ سمجھتا ہے۔ سند کے اختلافات سندیں دیکھ کر معلوم ہوسکتے ہیں۔یاد رہے اس اختلاف سے حدیث کی حیثیت مجروح نہیں ہوتی کیونکہ حدیث صحیح سند سے محفوظ ہوتی ہے۔ تکرار کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بعض دوسرے ضعیف راویوں نے سند کے بیان میں جو غلطیاں کی ہیں، وہ واضح ہوجائیں۔ ان کی غلطی سے اصل اور صحیح سند مجروح نہیں ہوتی، لہٰذا عوام الناس کو یہ اختلاف دیکھ کر پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ہر تکرار میں یہ چیز مدنظر رہے۔ (۲)یہ باب اور مسئلہ چند ابواب قبل گزر چکا ہے۔ یہاں دوبارہ اس باب کا ذکر صرف مذکورہ حدیث کی سند کا اختلاف ظاہر کرنے کے لیے ہے۔