سنن النسائي - حدیث 1767

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب وَقْتِ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ وَذِكْرِ الِاخْتِلَافِ عَلَى نَافِعٍ صحيح أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ إِسْحَقَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ قَالَ أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالْإِقَامَةِ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ كِلَا الْحَدِيثَيْنِ عِنْدَنَا خَطَأٌ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1767

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل فجر کی دورکعت( سنت )کا (مسنون )وقت اور اس روایت میں نافع سے اختلاف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی اذان اور اقامت کے درمیان دو ہلکی رکعتیں پڑھتے تھے۔ امام ابوعبدالرحمن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ دونوں روایتیں غلط ہیں۔ واللہ اعلم۔
تشریح : دونوں روایتوں سے مراد روایت ۱۷۶۶ اور ۱۷۶۷ ہیں۔ پہلی روایت میں غلطی یہ ہے کہ نافع اور حفصہ رضی اللہ عنہما کے درمیان صفیہ کی بجائے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا واسطہ چاہیے جیسا کہ روایت نمبر ۱۷۶۷ اور مابعد روایات میں ہے، یعنی نافع کے شاگردان میں سے صرف عبدالحمید بن جعفر، نافع عن صفیۃ عن حفصۃ کے طریق سے روایت کرتا ہے۔ باقی تمام تلامذہ، جن کی تعداد تقریباً نو ہے، یہ سب نافع اور حفصہ رضی اللہ عنہما کے درمیان ابن عمر رضی اللہ عنہما کا واسطہ ذکر کرتے ہیں، ہاں عن صفیۃ عن حفصۃ کے بیان میں حضرت سالم بن عبداللہ نافع کی متابعت کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی:۱۸؍۱۵۴) اور دوسری روایت:۱۷۶۷ میں غلطی یہ ہے کہ اس میں اوزاعی کے شاگرد شعیب کے بجائے یحییٰ (بن حمزہ) درست ہیں جیسا کہ آئندہ روایت میں مذکور ہے۔ واللہ اعلم۔ تاہم جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے، وہ صحیح ہے۔ دونوں روایتوں سے مراد روایت ۱۷۶۶ اور ۱۷۶۷ ہیں۔ پہلی روایت میں غلطی یہ ہے کہ نافع اور حفصہ رضی اللہ عنہما کے درمیان صفیہ کی بجائے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا واسطہ چاہیے جیسا کہ روایت نمبر ۱۷۶۷ اور مابعد روایات میں ہے، یعنی نافع کے شاگردان میں سے صرف عبدالحمید بن جعفر، نافع عن صفیۃ عن حفصۃ کے طریق سے روایت کرتا ہے۔ باقی تمام تلامذہ، جن کی تعداد تقریباً نو ہے، یہ سب نافع اور حفصہ رضی اللہ عنہما کے درمیان ابن عمر رضی اللہ عنہما کا واسطہ ذکر کرتے ہیں، ہاں عن صفیۃ عن حفصۃ کے بیان میں حضرت سالم بن عبداللہ نافع کی متابعت کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی:۱۸؍۱۵۴) اور دوسری روایت:۱۷۶۷ میں غلطی یہ ہے کہ اس میں اوزاعی کے شاگرد شعیب کے بجائے یحییٰ (بن حمزہ) درست ہیں جیسا کہ آئندہ روایت میں مذکور ہے۔ واللہ اعلم۔ تاہم جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے، وہ صحیح ہے۔