كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ تَرْكُ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي الدُّعَاءِ فِي الْوِتْرِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ دُعَائِهِ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ قَالَ شُعْبَةُ فَقُلْتُ لِثَابِتٍ أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ أَنَسٍ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ قُلْتُ سَمِعْتَهُ قَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ
کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
قنوت وتر میں ہاتھ نہ اٹھانا
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء (بارش کی دعا) کے علاوہ کسی بھی دعا میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ (راویٔ حدیث) شعبہ نے کہا کہ میں نے (اپنے استاد) ثابت (بنانی) سے کہا: کیا آپ نے یہ روایت خود حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنی ہے؟ انھوں نے کہا: سبحان اللہ ! میں نے پھر کہا: آپ نے سنی ہے؟ انھوں نے پھر کہا: سبحان اللہ (یعنی کیا بغیر سنے بیان کررہا ہوں؟)
تشریح :
(۱)مذکورہ بالا حدیث سے استدلال درست نہیں کیونکہ اس حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور دعا میں اتنے بلند ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے جتنے استسقا ء میں اٹھاتے تھے۔ اس میں آپ نے ہاتھ سر سے بھی اونچے کرلیے تھے جبکہ عام دعا میں ہاتھ سینے کے برابر ہوتے ہیں۔ احادیث میں آپ کا عام دعاؤں میں بھی ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔ (۲)قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، اس لیے افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ قنوت وتر بغیر ہاتھ اٹھائے رکوع سے قبل کی جائے جیسا کہ سنن نسائی کی حدیث (۱۷۰۰) میں ہے، تاہم بعض علماء بعض آثار کے پیش نظر اور قنوت نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے قنوت وتر میں بھی ہاتھ اٹھانے کے جواز کے قائل ہیں کیونکہ قنوت نازلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ثابت ہیں۔ واللہ اعلم۔ (۳)یہاں ہاتھ اٹھانے سے مراد دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ہے نہ کہ معروف رفع الیدین جو نماز کے شروع میں کیا جاتا ہے، مگر احناف اسی رفع الیدین کے قائل ہیں۔ اور قنوت میں عملاً رفع الیدین کرتے بھی ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ احناف رکوع جاتے اور اٹھتے وقت رفع الیدین کے قائل نہیں (بلکہ اس سے منع کرتے اور نماز کے سکون کے منافی خیال کرتے ہیں) حالانکہ وہ صحیح ترین کثیر احادیث سے ثابت ہے اور وتر کی دعا کے آغاز میں رفع الیدین کے قائل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ کیا یہ رفع الیدین نماز کے سکون کے منافی نہیں؟
(۱)مذکورہ بالا حدیث سے استدلال درست نہیں کیونکہ اس حدیث کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور دعا میں اتنے بلند ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے جتنے استسقا ء میں اٹھاتے تھے۔ اس میں آپ نے ہاتھ سر سے بھی اونچے کرلیے تھے جبکہ عام دعا میں ہاتھ سینے کے برابر ہوتے ہیں۔ احادیث میں آپ کا عام دعاؤں میں بھی ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔ (۲)قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، اس لیے افضل اور اولیٰ یہی ہے کہ قنوت وتر بغیر ہاتھ اٹھائے رکوع سے قبل کی جائے جیسا کہ سنن نسائی کی حدیث (۱۷۰۰) میں ہے، تاہم بعض علماء بعض آثار کے پیش نظر اور قنوت نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے قنوت وتر میں بھی ہاتھ اٹھانے کے جواز کے قائل ہیں کیونکہ قنوت نازلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ثابت ہیں۔ واللہ اعلم۔ (۳)یہاں ہاتھ اٹھانے سے مراد دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ہے نہ کہ معروف رفع الیدین جو نماز کے شروع میں کیا جاتا ہے، مگر احناف اسی رفع الیدین کے قائل ہیں۔ اور قنوت میں عملاً رفع الیدین کرتے بھی ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ احناف رکوع جاتے اور اٹھتے وقت رفع الیدین کے قائل نہیں (بلکہ اس سے منع کرتے اور نماز کے سکون کے منافی خیال کرتے ہیں) حالانکہ وہ صحیح ترین کثیر احادیث سے ثابت ہے اور وتر کی دعا کے آغاز میں رفع الیدین کے قائل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ کیا یہ رفع الیدین نماز کے سکون کے منافی نہیں؟