كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب الدُّعَاءِ فِي الْوِتْرِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَهِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ قَالَا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عَمْرٍو الْفَزَارِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي آخِرِ وِتْرِهِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ
کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
وتر میں دعائے قنوت
حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وتر نماز کے آخر میں یہ الفاظ پڑھتے تھے:[اللھم انی اعوذ برضاک من سخطک ۔۔۔ انت کما اثنیت علی نفسک] ’’اے اللہ! میں تیرے غصے سے بچنے کے لیے تیری رضامندی کی پناہ چاہتا ہوں اور تیری سزا سے بچنے کے لیے تیری معافی اور عافیت کی پناہ چاہتا ہوں اور میں تجھ سے ڈرتے ہوئے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں۔ میں تیری مکمل تعریف نہیں کرسکتا۔ تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے خود اپنی تعریف کی ہے۔‘‘
تشریح :
(۱)مذکورہ حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ اس دعا کا مقام کیا ہے؟ تشہد کے آخر میں یا سلام کے بعد۔ مؤخر الذکر مفہوم زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک روایت میں آپ سے یہ الفاظ بستر پر لیٹنے وقت پڑھنے بھی منقول ہیں۔ پیچھے حدیث نمبر ۱۱۰۱ میں یہ الفاظ تہجد کے سجدے کے دوران میں بھی آپ سے پڑھنے منقول ہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دعا کو قنوت وتر میں سمجھتے ہیں۔ [اخروترہ] کے یہ معنی بھی ممکن ہیں۔ لیکن ابن قیم رحمہ اللہ کی تحقیق میں افی اخر وترہ سے مراد سلام کے بعد ان کلمات کا پڑھنا ہے۔ ان کے بقول سنن نسائی کی ایک روایت میں نماز سے فراغت کی تصریح ملتی ہے۔ دیکھیے: (زادالمیعاد:۱؍۳۳۶) (۲)قنوت وتر سارا سال ہی جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موضوع سے متعلقہ عام روایات میں دعائے وتر کا ذکر نہیں ملتا۔ اگر آپ سے اس دعا کے پڑھنے کا بدستور ثبوت ملتا ہوتا تو یقیناً منقول بھی ہوتا، اس سے پتا چلتا ہے کہ دعائے وتر کبھی رہ جائے یا اسے چھوڑ بھی دیا جائے تو جائز ہے سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں کیونکہ اس دعا کی حیثیت وجوب کی نہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قنوت وتر کا ثبوت کبھی کبھار ملتا ہے۔ تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (اصل صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ۳؍۹۶۸)
(۱)مذکورہ حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ اس دعا کا مقام کیا ہے؟ تشہد کے آخر میں یا سلام کے بعد۔ مؤخر الذکر مفہوم زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک روایت میں آپ سے یہ الفاظ بستر پر لیٹنے وقت پڑھنے بھی منقول ہیں۔ پیچھے حدیث نمبر ۱۱۰۱ میں یہ الفاظ تہجد کے سجدے کے دوران میں بھی آپ سے پڑھنے منقول ہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دعا کو قنوت وتر میں سمجھتے ہیں۔ [اخروترہ] کے یہ معنی بھی ممکن ہیں۔ لیکن ابن قیم رحمہ اللہ کی تحقیق میں افی اخر وترہ سے مراد سلام کے بعد ان کلمات کا پڑھنا ہے۔ ان کے بقول سنن نسائی کی ایک روایت میں نماز سے فراغت کی تصریح ملتی ہے۔ دیکھیے: (زادالمیعاد:۱؍۳۳۶) (۲)قنوت وتر سارا سال ہی جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موضوع سے متعلقہ عام روایات میں دعائے وتر کا ذکر نہیں ملتا۔ اگر آپ سے اس دعا کے پڑھنے کا بدستور ثبوت ملتا ہوتا تو یقیناً منقول بھی ہوتا، اس سے پتا چلتا ہے کہ دعائے وتر کبھی رہ جائے یا اسے چھوڑ بھی دیا جائے تو جائز ہے سجدۂ سہو کی ضرورت نہیں کیونکہ اس دعا کی حیثیت وجوب کی نہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قنوت وتر کا ثبوت کبھی کبھار ملتا ہے۔ تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (اصل صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم: ۳؍۹۶۸)