كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب كَيْفَ الْوِتْرُ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً وَيُوتِرُ مِنْهَا بِوَاحِدَةٍ ثُمَّ يَضْطَجِعُ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ
کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
گیارہ رکعت وتر (تہجد مع وتر )کیسے پڑھیں؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو گیارہ رکعت پڑھتے تھے اور ان میں سے ایک رکعت (الگ) وتر پڑھتے، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔
تشریح :
(۱)گیارہ وتر (نماز تہجد مع وتر) پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو دو کرکے پڑھتے جائیں۔ آخر میں ایک رکعت پڑھ لیں۔ سب وتر بن جائے گی۔ (۲)’’پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔‘‘ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ وتر کے بعد لیٹنے کا ذکر شاذ ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ لیٹنا فجر کی دو سنتوں کے بعد تھا۔ صحیح روایات سے یہی ثابت ہے۔ (جس کی تفصیل حدیث:۱۷۶۳ کے فوائد میں دیکھی جاسکتی ہے۔) اس لیٹنے کی بابت اہل علم میں اختلاف ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے فجر کی دو سنتوں کے بعد اس کو جائز اور درست قرار دیا ہے جبکہ بعض اہل علم اس کو درست نہیں سمجھتے اور اس کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں۔ دلائل کی رو سے اقرب الی الصواب یہی رائے معلوم ہوتی ہے کہ سنتوں کے بعد لیٹنا مستحب اور افضل ہے کیونکہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی ہے اور آپ کا اپنا ذاتی عمل بھی۔ صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی دو رکعت پڑھ کر اپنے دائیں پہلو پر لیٹا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاذان، حدیث:۲۲۶، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث:۷۳۶) نیز صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: [اذا صلی احدکم الرکعتین قبل الصبح فلیضطحع علی بمینہ] ’’جب تم سے کوئی شخص نماز صبح سے پہلے دو رکعت (سنت) پڑھ لے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جائے۔‘‘ (سنن ابی داود، النطوع، حدیث:۱۲۶۱) بعض اہل علم کہتے ہیں: اگر کوئی شخص گھر میں سنتیں پڑھےتو لیٹ جائے۔ اگر مسجد میں پڑھے تو نہ لیٹے۔ یہ بات محل نظر ہے۔ اس مسئلے کے بارے میں فضیۃ الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ صحیح مسلم کی شرح منۃ المنعم میں رقمطراز ہیں کہ فجر کی سنتوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائیں پہلو پر لیٹنا اس کے مستحب ہونے کی دلیل ہے۔سنتیں گھر میں پڑھی جائیں یا مسجد میں، اس سے کوئی فرق نہیںپڑتا۔ آگے فرماتے ہیں: فجر کی سنتوں کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کا حکم مطلق ہے، جہاں سنتیں پڑھے، گھر میں ہو یا مسجد میں، وہیں لیٹے کیونکہ اس (حکم اضطحاع) کے مطلق ہونے کی وجہ سے گھر اور مسجدہر دو جگہ میں لیٹنا مستحب ہے۔ دیکھیے: (منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین:۱؍۴۶۴، شرح حدیث: (۱۲۲)۔۷۳۴)
(۱)گیارہ وتر (نماز تہجد مع وتر) پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو دو کرکے پڑھتے جائیں۔ آخر میں ایک رکعت پڑھ لیں۔ سب وتر بن جائے گی۔ (۲)’’پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔‘‘ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ وتر کے بعد لیٹنے کا ذکر شاذ ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ لیٹنا فجر کی دو سنتوں کے بعد تھا۔ صحیح روایات سے یہی ثابت ہے۔ (جس کی تفصیل حدیث:۱۷۶۳ کے فوائد میں دیکھی جاسکتی ہے۔) اس لیٹنے کی بابت اہل علم میں اختلاف ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے فجر کی دو سنتوں کے بعد اس کو جائز اور درست قرار دیا ہے جبکہ بعض اہل علم اس کو درست نہیں سمجھتے اور اس کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں۔ دلائل کی رو سے اقرب الی الصواب یہی رائے معلوم ہوتی ہے کہ سنتوں کے بعد لیٹنا مستحب اور افضل ہے کیونکہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی ہے اور آپ کا اپنا ذاتی عمل بھی۔ صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی دو رکعت پڑھ کر اپنے دائیں پہلو پر لیٹا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاذان، حدیث:۲۲۶، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث:۷۳۶) نیز صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: [اذا صلی احدکم الرکعتین قبل الصبح فلیضطحع علی بمینہ] ’’جب تم سے کوئی شخص نماز صبح سے پہلے دو رکعت (سنت) پڑھ لے تو اپنے دائیں پہلو پر لیٹ جائے۔‘‘ (سنن ابی داود، النطوع، حدیث:۱۲۶۱) بعض اہل علم کہتے ہیں: اگر کوئی شخص گھر میں سنتیں پڑھےتو لیٹ جائے۔ اگر مسجد میں پڑھے تو نہ لیٹے۔ یہ بات محل نظر ہے۔ اس مسئلے کے بارے میں فضیۃ الشیخ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ صحیح مسلم کی شرح منۃ المنعم میں رقمطراز ہیں کہ فجر کی سنتوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائیں پہلو پر لیٹنا اس کے مستحب ہونے کی دلیل ہے۔سنتیں گھر میں پڑھی جائیں یا مسجد میں، اس سے کوئی فرق نہیںپڑتا۔ آگے فرماتے ہیں: فجر کی سنتوں کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنے کا حکم مطلق ہے، جہاں سنتیں پڑھے، گھر میں ہو یا مسجد میں، وہیں لیٹے کیونکہ اس (حکم اضطحاع) کے مطلق ہونے کی وجہ سے گھر اور مسجدہر دو جگہ میں لیٹنا مستحب ہے۔ دیکھیے: (منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین:۱؍۴۶۴، شرح حدیث: (۱۲۲)۔۷۳۴)