سنن النسائي - حدیث 1698

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب كَيْفَ الْوِتْرُ بِثَلَاثٍ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ قَالَتْ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْأَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ قَالَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ عَيْنِي تَنَامُ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1698

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل تین وتر کیسے پڑھے جائیں حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے منقول ہے، انھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (رات کی) نماز کیسے ہوتی تھی؟ تو انھوں نے فرمایا: آپ رمضان یا غیررمضان میں (عموماً) گیارہ رکعات سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ چار رکعات پڑھتے ایسی خوب صورت اور طویل کہ کچھ نہ پوچھ، پھر چار پڑھتے ایسی خوب صورت اور طویل کہ کچھ نہ پوچھ، پھر تین رکعات پڑھتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ وتر (تین رکعات) پڑھنے سے پہلے سوجاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں، دل نہیں سوتا۔‘‘
تشریح : (۱)ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات ایک سلام سے پڑھتے تھے، پھر چار ایک سلام سے، پھر تین ایک سلام سے۔ یہ طریقہ بھی درست ہے، اسی لیے مصنف رحمہ اللہ نے تین وتر کا باب باندھا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز تہجد کے متعلق مختلف طریقے منقول ہیں۔ صحیح احادیث کی روشنی میں ان میں سے کوئی سا طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ افضل یہ ہے کہ عمل میں تنوع ہو، کبھی یہ، کبھی وہ، اصل اتباع سنت یہی ہے۔ عموماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز تہجد گیارہ رکعات، دودوکرکے اور آخر میں وتر ایک رکعت کی صورت میں منقول ہے، اور یہ طریقہ افضل ہے۔ لیکن کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو رکعات اکٹھی اور بعد میں دورکعات، کبھی سات اور کبھی تیرہ رکعات، آٹھ دو دو کرکے اور پانچ وتر اکٹھے بھی پڑھے ہیں، لہٰذا دودورکعات والی عام روایات کی روشنی میں ان میں تاویل کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح چار چار رکعات نماز تہجد میں بھی کوئی حرج نہیں، نہ یہ ممنوع ہیں بلکہ مذکورہ بالاحدیث اس کی مشروعیت کے لیے کافی ہے۔ بعض کا یہ کہنا کہ چار چار س اکٹھی چار چار مراد نہیں بلکہ دیگر احادیث کی روشنی میں دودورکعات ہی مراد ہیں لیکن یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ جب احادیث میں ایک ہی نہیں بلکہ کچھ اور طریقے بھی منقول ہیں تو انہیں تسلیم کرنے سے اس طریقے کو بھی ماننے یا عمل میں لانے میں کون سی چیز مانع ہے؟ نمازتہجد کے متعددطریقوں کے لیے دیکھیے: (صلاۃ التراویح، للالبانی، ص:۸۶۔۹۳) (۲)’’زائد نہیں پڑھتے تھے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول گیارہ رکعات ہی تھا۔ گیارہ سے کم بھی پڑھی جاسکتی ہیں کیونکہ کم پڑھنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ (۳)’’دل نہیں سوتا‘‘ اور یہ تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کی خصوصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے خواب سچے اور وحی ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل حالت نیند میں بھی چونکہ بیدار ہوتا تھا، اس لیے آپ کو حدث (بے وضو ہونا) وغیرہ کا پتا چل جاتا تھا۔ گویا نیند صرف خروج ریح کے خطرے کی بنا پر ناقض وضو ہے۔ (۱)ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات ایک سلام سے پڑھتے تھے، پھر چار ایک سلام سے، پھر تین ایک سلام سے۔ یہ طریقہ بھی درست ہے، اسی لیے مصنف رحمہ اللہ نے تین وتر کا باب باندھا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز تہجد کے متعلق مختلف طریقے منقول ہیں۔ صحیح احادیث کی روشنی میں ان میں سے کوئی سا طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ افضل یہ ہے کہ عمل میں تنوع ہو، کبھی یہ، کبھی وہ، اصل اتباع سنت یہی ہے۔ عموماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز تہجد گیارہ رکعات، دودوکرکے اور آخر میں وتر ایک رکعت کی صورت میں منقول ہے، اور یہ طریقہ افضل ہے۔ لیکن کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو رکعات اکٹھی اور بعد میں دورکعات، کبھی سات اور کبھی تیرہ رکعات، آٹھ دو دو کرکے اور پانچ وتر اکٹھے بھی پڑھے ہیں، لہٰذا دودورکعات والی عام روایات کی روشنی میں ان میں تاویل کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح چار چار رکعات نماز تہجد میں بھی کوئی حرج نہیں، نہ یہ ممنوع ہیں بلکہ مذکورہ بالاحدیث اس کی مشروعیت کے لیے کافی ہے۔ بعض کا یہ کہنا کہ چار چار س اکٹھی چار چار مراد نہیں بلکہ دیگر احادیث کی روشنی میں دودورکعات ہی مراد ہیں لیکن یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ جب احادیث میں ایک ہی نہیں بلکہ کچھ اور طریقے بھی منقول ہیں تو انہیں تسلیم کرنے سے اس طریقے کو بھی ماننے یا عمل میں لانے میں کون سی چیز مانع ہے؟ نمازتہجد کے متعددطریقوں کے لیے دیکھیے: (صلاۃ التراویح، للالبانی، ص:۸۶۔۹۳) (۲)’’زائد نہیں پڑھتے تھے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول گیارہ رکعات ہی تھا۔ گیارہ سے کم بھی پڑھی جاسکتی ہیں کیونکہ کم پڑھنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ (۳)’’دل نہیں سوتا‘‘ اور یہ تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کی خصوصیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے خواب سچے اور وحی ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل حالت نیند میں بھی چونکہ بیدار ہوتا تھا، اس لیے آپ کو حدث (بے وضو ہونا) وغیرہ کا پتا چل جاتا تھا۔ گویا نیند صرف خروج ریح کے خطرے کی بنا پر ناقض وضو ہے۔