سنن النسائي - حدیث 1692

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب كَمْ الْوِتْرُ صحيح أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَفَّانَ قَالَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ قَالَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ قَالَ مَثْنَى مَثْنَى وَالْوِتْرُ رَكْعَةٌ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1692

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل وتر کتنے ہیں؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک بدوی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’دو دورکعت کرکے پڑھتے جاؤ اور آخر رات میں ایک رکعت وتر پڑھ لو۔‘‘
تشریح : (۱)اصل وتر ایک رکعت ہے مگر اس سے پہلے کچھ نہ کچھ نوافل پڑھنے چاہییں یہ ایک رکعت ان سب کو وتر (طاق) بنادے گی۔ باب کی پہلی دو روایات مجمل ہیں۔ تیسری روایت ان کا مطلب واضح کرتی ہے کہ بہتر یہ ہے کہ ایک رکعت پڑھنے سے پہلے کم از کم دو رکعت ضرور پڑھے۔ اگر صرف ایک رکعت ہی پر اکتفا کرتا ہے تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ صحیح احادیث سے یہ بھی ثابت ہے۔ (۲)احناف نے وتر کو تین رکعت ہی مقرر کرلیا ہے۔ نہ کم، نہ زیادہ مگر اس کی کوئی دلیل نہیں بلکہ یہ تحدید صریح روایات کے خلاف ہے، پھر ان کے نزدیک چونکہ یہ واجب ہے، لہٰذا تین رکعات ایک ہی سلام سے ہوں گی، حالانکہ صریح روایات ایک رکعت الگ پڑھنے کو جائز بلکہ مستحب قرار دیتی ہے۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ (۱)اصل وتر ایک رکعت ہے مگر اس سے پہلے کچھ نہ کچھ نوافل پڑھنے چاہییں یہ ایک رکعت ان سب کو وتر (طاق) بنادے گی۔ باب کی پہلی دو روایات مجمل ہیں۔ تیسری روایت ان کا مطلب واضح کرتی ہے کہ بہتر یہ ہے کہ ایک رکعت پڑھنے سے پہلے کم از کم دو رکعت ضرور پڑھے۔ اگر صرف ایک رکعت ہی پر اکتفا کرتا ہے تو یہ بھی جائز ہے کیونکہ صحیح احادیث سے یہ بھی ثابت ہے۔ (۲)احناف نے وتر کو تین رکعت ہی مقرر کرلیا ہے۔ نہ کم، نہ زیادہ مگر اس کی کوئی دلیل نہیں بلکہ یہ تحدید صریح روایات کے خلاف ہے، پھر ان کے نزدیک چونکہ یہ واجب ہے، لہٰذا تین رکعات ایک ہی سلام سے ہوں گی، حالانکہ صریح روایات ایک رکعت الگ پڑھنے کو جائز بلکہ مستحب قرار دیتی ہے۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔