سنن النسائي - حدیث 1686

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ الْوِتْرُ بَعْدَ الْأَذَانِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عِديٍّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ كَانَ فِي مَسْجِدِ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ فَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَجَعَلُوا يَنْتَظِرُونَهُ فَجَاءَ فَقَالَ إِنِّي كُنْتُ أُوتِرُ قَالَ وَسُئِلَ عَبْدُ اللَّهِ هَلْ بَعْدَ الْأَذَانِ وِتْرٌ قَالَ نَعَمْ وَبَعْدَ الْإِقَامَةِ وَحَدَّثَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَامَ عَنْ الصَّلَاةِ حَتَّى طَلَعَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1686

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل صبح کی اذان کے بعدوتر پڑھنا حضرت محمد بن منتشر سے مروی ہے کہ میں حضرت عمروبن شرحبیل کی مسجد میں تھا، نماز کی تکبیر ہوگئی (مگر وہ نہ آئے۔) لوگ ان کا انتظار کرنے لگے، پھر وہ آئے تو انھوں نے کہا: میں وتر پڑھ رہا تھا، نیز انھوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا صبح کی اذان کے بعد وتر پڑھے جاسکتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: ہاں، بلکہ اقامت کے بعد بھی، پھر انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز فجر سوتے میں رہ گئی تھی حتی کہ سورج طلوع ہوگیا تو آپ نے اس وقت نماز پڑھی۔
تشریح : (۱)حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ ہے کہ فوت شدہ نماز وقت کے بعد بھی پڑھی جائے گی۔ اسی طرح وتر رہ جائیں تو وہ بھی پڑھے جائیں گے، وقت کوئی بھی ہو۔ یہی بات درست ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر احادیث س بھی،جو وتر سے متعلق ہیں، اس کی تائید ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اپنے وتر سے سویا رہ گیا (اور نہ پڑھ سکا) یا اسے بھول گیا تو جب بھی یاد آئے (یا جاگ آئے) پڑھ لے۔‘‘ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: ۱۴۳۱) اس سے وتر کے وجوب اور فرضیت پر استدلال نہیں ہوسکے گا کیونکہ جیسے فرائض و واجبات کی ادائیگی ہوتی ہے ایسے ہی نوافل اور ہر مؤکد عمل کی بھی ہوسکتی ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی سنتوں کی قضا عص کے بعد ادا کی۔ صبح کی سنتیں سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھیں۔ ظاہر ہے ظہر اور فجر کی سنتیں واجب نہیں مؤکد ہی ہیں۔ اسی طرح وتر باوجود واجب نہ ہونے کے اس کی قضا دی جاسکتی ہے۔ (۲)بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جس کے وتر رہ جائیں تووہ سورج نکلنے کے بعد اس کی قضا جفت کی شکل میں دے، یعنی ایک وتر کی جگہ دو رکعت، تین وتر کی جگہ چار رکعات پڑھے لیکن ہمارے خیال میں ایسا اس شخص کے لیے ضروری ہوگا جو قیام اللیل (نمازتہجد) کا عادی ہو، عام شخص کے لیے وتروں کی قضا، وتر ہی کی شکل میں مناسب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ (۱)حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ ہے کہ فوت شدہ نماز وقت کے بعد بھی پڑھی جائے گی۔ اسی طرح وتر رہ جائیں تو وہ بھی پڑھے جائیں گے، وقت کوئی بھی ہو۔ یہی بات درست ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیگر احادیث س بھی،جو وتر سے متعلق ہیں، اس کی تائید ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اپنے وتر سے سویا رہ گیا (اور نہ پڑھ سکا) یا اسے بھول گیا تو جب بھی یاد آئے (یا جاگ آئے) پڑھ لے۔‘‘ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: ۱۴۳۱) اس سے وتر کے وجوب اور فرضیت پر استدلال نہیں ہوسکے گا کیونکہ جیسے فرائض و واجبات کی ادائیگی ہوتی ہے ایسے ہی نوافل اور ہر مؤکد عمل کی بھی ہوسکتی ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی سنتوں کی قضا عص کے بعد ادا کی۔ صبح کی سنتیں سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھیں۔ ظاہر ہے ظہر اور فجر کی سنتیں واجب نہیں مؤکد ہی ہیں۔ اسی طرح وتر باوجود واجب نہ ہونے کے اس کی قضا دی جاسکتی ہے۔ (۲)بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جس کے وتر رہ جائیں تووہ سورج نکلنے کے بعد اس کی قضا جفت کی شکل میں دے، یعنی ایک وتر کی جگہ دو رکعت، تین وتر کی جگہ چار رکعات پڑھے لیکن ہمارے خیال میں ایسا اس شخص کے لیے ضروری ہوگا جو قیام اللیل (نمازتہجد) کا عادی ہو، عام شخص کے لیے وتروں کی قضا، وتر ہی کی شکل میں مناسب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔