سنن النسائي - حدیث 1680

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب نَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْوِتْرَيْنِ فِي لَيْلَةٍ صحيح أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ مُلَازِمِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَدْرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ قَالَ زَارَنَا أَبِي طَلْقُ بْنُ عَلِيٍّ فِي يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ فَأَمْسَى بِنَا وَقَامَ بِنَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ وَأَوْتَرَ بِنَا ثُمَّ انْحَدَرَ إِلَى مَسْجِدٍ فَصَلَّى بِأَصْحَابِهِ حَتَّى بَقِيَ الْوِتْرُ ثُمَّ قَدَّمَ رَجُلًا فَقَالَ لَهُ أَوْتِرْ بِهِمْ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1680

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل نبی ﷺنے ایک رات میں دودفعہ وتر پڑھنے سے منع کیا ہے حضرت قیس بن طلق سے روایت ہے کہ میرے والد محترم حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ رمضان المبارک میں ایک دن ہم سے ملنے کے لیے تشریف لائے۔ انھیں شام ہوگئی۔ اس رات انھوں نے ہمیں نماز پڑھائی اور وتر پڑھائے، پھر مسجد تشریف لے گئے اور اپنے دوسرے ساتھیوں کو نماز پڑھائی، حتی کہ جب وتر باقی رہ گئے تو ایک آدمی کو اپنی جگہ آگے کیا اور فرمایا: تم انھیں وتر پڑھا دو (کیونکہ میں پڑھ چکا ہوں۔) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ایک رات میں دو دفعہ وتر نہیں پڑھے جاسکتے۔
تشریح : جمہور اہل علم کے نزدیک یہی بات صحیح ہے کہ اگر شروع رات میں وتر پڑھ چکا ہو اور دوبارہ موقع مل جائے تو دو دو رکعت پڑھتا رہے، دوبارہ وتر پڑھنے کی ضرورت نہیں، البتہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حسن سند کے ساتھ منقول ہے کہ اس صورت میں تہجد شروع کرنے سے پہلے ایک رکعت پڑھ کر رات کی طاق نماز کو جفت کرلے، پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ لے۔ اس طرح نماز مجموعی طور پر طاق بن جائے گی اور وتر بھی آخر میں ہو جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا عمل اسی طرح تھا۔ دیکھیے: (مسند احمد:۲؍۱۳۵) یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی رائے اور ذاتی عمل ہے لیکن اس طرح باب کی حدیث میں ذکر کردہ طریقے سے وتر درمیان میں آجائے گا جبکہ آپ نے وتر رات کی نماز کے آخر میں پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ جمہور نے یہ جواب دیا ہے کہ وتر آخر میں پڑھنا مستحب ہے، واجب نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھنا ثابت ہے، نیز اول رات تو وتر آخر ہی میں پڑھا گیا تھا اگر صبح کے وقت پڑھا جاتا تو آخر ہی میں پڑھا جاتا۔ جمہور اہل علم کی بات زیادہ قوی ہے ورنہ وتر تین دفعہ پڑھا جائے گا اور آپ نے تو دودفعہ وتر پڑھنے سے بھی روکا ہے، تین دفعہ کیسے جائز ہوگا؟ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سن النسائی:۱۸؍۳۹۔۴۲) جمہور اہل علم کے نزدیک یہی بات صحیح ہے کہ اگر شروع رات میں وتر پڑھ چکا ہو اور دوبارہ موقع مل جائے تو دو دو رکعت پڑھتا رہے، دوبارہ وتر پڑھنے کی ضرورت نہیں، البتہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حسن سند کے ساتھ منقول ہے کہ اس صورت میں تہجد شروع کرنے سے پہلے ایک رکعت پڑھ کر رات کی طاق نماز کو جفت کرلے، پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ لے۔ اس طرح نماز مجموعی طور پر طاق بن جائے گی اور وتر بھی آخر میں ہو جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا عمل اسی طرح تھا۔ دیکھیے: (مسند احمد:۲؍۱۳۵) یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی رائے اور ذاتی عمل ہے لیکن اس طرح باب کی حدیث میں ذکر کردہ طریقے سے وتر درمیان میں آجائے گا جبکہ آپ نے وتر رات کی نماز کے آخر میں پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ جمہور نے یہ جواب دیا ہے کہ وتر آخر میں پڑھنا مستحب ہے، واجب نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھنا ثابت ہے، نیز اول رات تو وتر آخر ہی میں پڑھا گیا تھا اگر صبح کے وقت پڑھا جاتا تو آخر ہی میں پڑھا جاتا۔ جمہور اہل علم کی بات زیادہ قوی ہے ورنہ وتر تین دفعہ پڑھا جائے گا اور آپ نے تو دودفعہ وتر پڑھنے سے بھی روکا ہے، تین دفعہ کیسے جائز ہوگا؟ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سن النسائی:۱۸؍۳۹۔۴۲)