سنن النسائي - حدیث 1676

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب الْأَمْرِ بِالْوِتْرِ صحيح أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمٍ وَهُوَ ابْنُ ضَمْرَةَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ أَوْتِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1676

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل نمازوتر کا حکم دیا گیا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز وتر پڑھی، پھر آپ نے فرمایا: ’’اے قرآن والو! وتر پڑھا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ وتر (اکیلا) ہے اور وتر کو پسند فرماتا ہے۔‘‘
تشریح : (۱)مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے اوریہی رائے اقرب الی الصلوۃ معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد: ۲ ؍۴۱۳، وصحیح سنن ابی داود (مفصل) للالبانی: ۵؍۱۵۹، رقم الحدیث: ۱۲۷۴، وذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی ۱۸؍۲۸۔۳۳) (۲)وتر عربی میں طاق عدد کو کہتے ہیں جو دو پر تقسیم نہ ہو۔ اصطلاح میں رات کی نماز کو کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے بارے میں حکم ہے کہ اسے مجموعی طور پر طاق عدد میں پڑھا جائے۔ تین یا پانچ یا سات یا نو یا گیارہ۔ (۳)رات کی نماز فرض نہیں بلکہ نفل ہے، اس لیے وتر فرض ہے نہ واجب بلکہ نفل مؤکد ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر بھی وتر پڑھ لیا کرتے تھے جبکہ فرائض یا واجبات کی ادائیگی کے لیے نیچے اترجاتے، اس سے بھی معلوم ہوا کہ وتر واجب نہیں۔ باقی رہا حکم تو حکم ہر جگہ وجوب کے لیے نہیں ہوتا۔ بعض جگہ تاکید یا استحباب کے لیے بھی ہوتا ہے بلکہ جواز کے لیے بھی آجاتا ہے، مثلاً: (واذا حللتم فاصطادوا) (المائدہ۵:۲) ’’جب تم احرام کھول لو تو شکار کرو۔‘‘ یعنی شکار کرسکتے ہو۔ کیونکہ کسی فقیہ اور محدث کے نزدیک بھی احرام کے بعد شکار کرنا ضروری بلکہ مستحب بھی نہیں، نیز اسی حدیث کے آخری الفاظ ’’پسند فرمات ہے‘‘ بھی وتر کے استحباب وتاکید پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ (۴)’’اے قرآن والو!‘‘ مراد مسلمان ہیں کہ ان کی کتاب قرآن ہے۔ یا قرآن کے حفاظ مراد ہیں، یعنی حفاظ کو رات کی نماز پڑھنی چاہیے کیونکہ یہ حفظ قرآن کا حق ہے، ورنہ حفظ کا اور کیا فائدہ ہے؟ نیز اس طرح حفظ قائم رہے گا ورنہ بھول جانے کا خدشہ ہے۔ اس صورت میں وتر سے مراد نماز تہجد ہوگی جو تعداد میں زیادہ اور قراءت میں طویل ہوتی ہے اور یہ حفاظ کے لائق ہے۔ باقی رہے کم از کم وتر تو وہ سب مسلمانوں کے لیے مؤکد ہیں۔ ان کی تعداد تین یا ایک ہے۔ (۵)’’اللہ تعالیٰ وتر (ایک) ہے‘‘ یعنی یکتا ہے جس میں کسی لحاظ سے تجزی، دوئی یا شراکت نہیں، نہ وہ قابل تقسیم ہے، اس لیے رات کی نماز کو زیادہ محبوب رکھتا ہے کیونکہ وہ بھی تو دوئی کو قبول نہیں کرتی۔ (۶)اللہ تعالیٰ کی محبت کو بعض لوگوں نے ثواب کے معنی میں لیا ہے مگر اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔ محبت اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات انسانوں یا کسی بھی مخلوق کی صفات جیسی نہیں کہ ان کے مشابہ قرار دیا جاسکے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرح بے مثال ہیں۔ (۷)وتر پڑھنے والے سے اللہ تعالیٰ خصوصی محبت فرماتا ہے۔ (۱)مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف کہا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے اوریہی رائے اقرب الی الصلوۃ معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد: ۲ ؍۴۱۳، وصحیح سنن ابی داود (مفصل) للالبانی: ۵؍۱۵۹، رقم الحدیث: ۱۲۷۴، وذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی ۱۸؍۲۸۔۳۳) (۲)وتر عربی میں طاق عدد کو کہتے ہیں جو دو پر تقسیم نہ ہو۔ اصطلاح میں رات کی نماز کو کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے بارے میں حکم ہے کہ اسے مجموعی طور پر طاق عدد میں پڑھا جائے۔ تین یا پانچ یا سات یا نو یا گیارہ۔ (۳)رات کی نماز فرض نہیں بلکہ نفل ہے، اس لیے وتر فرض ہے نہ واجب بلکہ نفل مؤکد ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر بھی وتر پڑھ لیا کرتے تھے جبکہ فرائض یا واجبات کی ادائیگی کے لیے نیچے اترجاتے، اس سے بھی معلوم ہوا کہ وتر واجب نہیں۔ باقی رہا حکم تو حکم ہر جگہ وجوب کے لیے نہیں ہوتا۔ بعض جگہ تاکید یا استحباب کے لیے بھی ہوتا ہے بلکہ جواز کے لیے بھی آجاتا ہے، مثلاً: (واذا حللتم فاصطادوا) (المائدہ۵:۲) ’’جب تم احرام کھول لو تو شکار کرو۔‘‘ یعنی شکار کرسکتے ہو۔ کیونکہ کسی فقیہ اور محدث کے نزدیک بھی احرام کے بعد شکار کرنا ضروری بلکہ مستحب بھی نہیں، نیز اسی حدیث کے آخری الفاظ ’’پسند فرمات ہے‘‘ بھی وتر کے استحباب وتاکید پر دلالت کرتے ہیں۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ (۴)’’اے قرآن والو!‘‘ مراد مسلمان ہیں کہ ان کی کتاب قرآن ہے۔ یا قرآن کے حفاظ مراد ہیں، یعنی حفاظ کو رات کی نماز پڑھنی چاہیے کیونکہ یہ حفظ قرآن کا حق ہے، ورنہ حفظ کا اور کیا فائدہ ہے؟ نیز اس طرح حفظ قائم رہے گا ورنہ بھول جانے کا خدشہ ہے۔ اس صورت میں وتر سے مراد نماز تہجد ہوگی جو تعداد میں زیادہ اور قراءت میں طویل ہوتی ہے اور یہ حفاظ کے لائق ہے۔ باقی رہے کم از کم وتر تو وہ سب مسلمانوں کے لیے مؤکد ہیں۔ ان کی تعداد تین یا ایک ہے۔ (۵)’’اللہ تعالیٰ وتر (ایک) ہے‘‘ یعنی یکتا ہے جس میں کسی لحاظ سے تجزی، دوئی یا شراکت نہیں، نہ وہ قابل تقسیم ہے، اس لیے رات کی نماز کو زیادہ محبوب رکھتا ہے کیونکہ وہ بھی تو دوئی کو قبول نہیں کرتی۔ (۶)اللہ تعالیٰ کی محبت کو بعض لوگوں نے ثواب کے معنی میں لیا ہے مگر اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔ محبت اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات انسانوں یا کسی بھی مخلوق کی صفات جیسی نہیں کہ ان کے مشابہ قرار دیا جاسکے، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرح بے مثال ہیں۔ (۷)وتر پڑھنے والے سے اللہ تعالیٰ خصوصی محبت فرماتا ہے۔