سنن النسائي - حدیث 1667

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب كَيْفَ صَلَاةُ اللَّيْلِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا الْأَزْدِيَّ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلَاةُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مَثْنَى مَثْنَى أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هَذَا الْحَدِيثُ عِنْدِي خَطَأٌ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1667

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل رات کی نمازکس طرح پڑھی جا ئے؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دن اور رات کی (نفل) نماز دو دو رکعت کرکے پڑھنی چاہیے۔‘‘ امام ابوعبدالرحمن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں میرے نزدیک یہ حدیث خطا ہے۔ واللہ اعلم۔
تشریح : امام نسائی رحمہ اللہ کا عندی خطا کے ساتھ لفظ ’’دن‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔ کثیر روایات میں صرف رات کی نماز کا ذکر ہے، نیز بعض علماء کے نزدیک ابن عمر رضی اللہ عنہما کا صرف ایک شاگرد ’’دن اور رات‘‘ دونوں کا ذکر کرتا ہے جس کا نام علی الازدی ہے اور یہ ثقہ ہے، اس لیے یہ کہنا کہ دن کی نماز بھی دورکعت پڑھنا افضل اور مستحب ہے، درست نہیں لیکن اکثر محققین کے نزدیک روایت میں مذکور ’’دن‘‘ کا اضافہ بھی صحیح ہے کیونکہ حدیث کے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے دیگر طرق بھی منقول ہیں جن میں مذکورہ اضافے کا ذکر ملتا ہے، نیز کچھ شواہد سے بھی اس کی تائید ہوتی ےہ، اس لیے یہ حدیث لفظ [النھار] کے اضافے کے ساتھ صحیح ہے، اسے امام بخاری، احمد، ابن خزیمہ، ابن حبان، بیہقی اور علامہ خطابی رحم اللہ علیہم نے صحیح قرار دیا ہے، اس لیے امام نسائی رحمہ اللہ کا لفظ نھار کو خطا کہنا محل نظر ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (صحیح سنن ابی داود (مفصل) للالبانی، رقم الحدیث:۱۱۷۶، و جامع الترمذی بتحقیق الشیخ احمد شاکر:۲؍۴۹۲، حدیث:۵۹۷) بنابریں معلوم ہوا کہ دن کے وقت بھی نفل نماز دو دو کرکے پڑھنا افضل ہے اگرچہ اکٹھی چار پڑھنا بھی جائز ہے۔ یا ان سنن اور نوافل کو چار پڑھنا افضل اور مستحب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت چار پڑھے ہیں باقی کو دو دو کرکے یا اکٹھے چار پڑھنا بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی:۱۸؍۱۴۔۲۰) امام نسائی رحمہ اللہ کا عندی خطا کے ساتھ لفظ ’’دن‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔ کثیر روایات میں صرف رات کی نماز کا ذکر ہے، نیز بعض علماء کے نزدیک ابن عمر رضی اللہ عنہما کا صرف ایک شاگرد ’’دن اور رات‘‘ دونوں کا ذکر کرتا ہے جس کا نام علی الازدی ہے اور یہ ثقہ ہے، اس لیے یہ کہنا کہ دن کی نماز بھی دورکعت پڑھنا افضل اور مستحب ہے، درست نہیں لیکن اکثر محققین کے نزدیک روایت میں مذکور ’’دن‘‘ کا اضافہ بھی صحیح ہے کیونکہ حدیث کے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے دیگر طرق بھی منقول ہیں جن میں مذکورہ اضافے کا ذکر ملتا ہے، نیز کچھ شواہد سے بھی اس کی تائید ہوتی ےہ، اس لیے یہ حدیث لفظ [النھار] کے اضافے کے ساتھ صحیح ہے، اسے امام بخاری، احمد، ابن خزیمہ، ابن حبان، بیہقی اور علامہ خطابی رحم اللہ علیہم نے صحیح قرار دیا ہے، اس لیے امام نسائی رحمہ اللہ کا لفظ نھار کو خطا کہنا محل نظر ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (صحیح سنن ابی داود (مفصل) للالبانی، رقم الحدیث:۱۱۷۶، و جامع الترمذی بتحقیق الشیخ احمد شاکر:۲؍۴۹۲، حدیث:۵۹۷) بنابریں معلوم ہوا کہ دن کے وقت بھی نفل نماز دو دو کرکے پڑھنا افضل ہے اگرچہ اکٹھی چار پڑھنا بھی جائز ہے۔ یا ان سنن اور نوافل کو چار پڑھنا افضل اور مستحب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت چار پڑھے ہیں باقی کو دو دو کرکے یا اکٹھے چار پڑھنا بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی:۱۸؍۱۴۔۲۰)