سنن النسائي - حدیث 1645

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ الِاخْتِلَافُ عَلَى عَائِشَةَ فِي إِحْيَاءِ اللَّيْلِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ قَالَ سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ يَقُولُ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ فَقِيلَ لَهُ قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1645

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل رات جاگنے والی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ میں اختلاف حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (نفل) نماز اتنی لمبی پڑھتے تھے کہ آپ کے قدم مبارک سوج جاتے تھے۔ آپ سے گزارش کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے سب قصور معاف فرما دیے ہیں (پھر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں؟) آپ نے فرمایا: ’’کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ نہ بنو؟‘‘
تشریح : (۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کا سوج جانا سستی کومستلزم نہیں کیونکہ سستی اور چستی کا تعلق دل اور دماغ کے ساتھ ہے۔ (۲)’’اگلے پچھلے گناہ‘‘ یہ ایک فرضی چیز ہے۔ کہا گیا ہے نبوت سے قبل اگر کوئی کوتاہی ہوئی ہو۔ بعض نے اس سے ترک اولیٰ مراد لیا ہے جو آپ اپنی امت کی مصلحت کی خاطر کیا کرتے تھے، مثلاً : جنگ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا یا عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھنا وغیرہ۔ اسے اجتہادی خطا سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ (۳)’’شکرگزار بندہ‘‘ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھ گچھ موقوف کردی ہے تو میرا بھی فرض ہے کہ میں ہر دم اسی کو یاد کروں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انھی اداؤں نے آپ کو سیدالاولین والآخرین بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد ہی کی وجہ سے آپ مقام محمود پر فائز ہوں گے۔ (فداہ نفسی و روحی صلی اللہ علیہ وسلم) (۴)شکر جیسے زبان سے ادا ہوتا ہے عمل سے بھی ہوتا ہے۔ (۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کا سوج جانا سستی کومستلزم نہیں کیونکہ سستی اور چستی کا تعلق دل اور دماغ کے ساتھ ہے۔ (۲)’’اگلے پچھلے گناہ‘‘ یہ ایک فرضی چیز ہے۔ کہا گیا ہے نبوت سے قبل اگر کوئی کوتاہی ہوئی ہو۔ بعض نے اس سے ترک اولیٰ مراد لیا ہے جو آپ اپنی امت کی مصلحت کی خاطر کیا کرتے تھے، مثلاً : جنگ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دینا یا عبداللہ بن ابی کا جنازہ پڑھنا وغیرہ۔ اسے اجتہادی خطا سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ (۳)’’شکرگزار بندہ‘‘ یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھ گچھ موقوف کردی ہے تو میرا بھی فرض ہے کہ میں ہر دم اسی کو یاد کروں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انھی اداؤں نے آپ کو سیدالاولین والآخرین بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد ہی کی وجہ سے آپ مقام محمود پر فائز ہوں گے۔ (فداہ نفسی و روحی صلی اللہ علیہ وسلم) (۴)شکر جیسے زبان سے ادا ہوتا ہے عمل سے بھی ہوتا ہے۔