كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ الِاخْتِلَافُ عَلَى عَائِشَةَ فِي إِحْيَاءِ اللَّيْلِ صحيح أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ عَنْ يَحْيَى عَنْ هِشَامٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا امْرَأَةٌ فَقَالَ مَنْ هَذِهِ قَالَتْ فُلَانَةُ لَا تَنَامُ فَذَكَرَتْ مِنْ صَلَاتِهَا فَقَالَ مَهْ عَلَيْكُمْ بِمَا تُطِيقُونَ فَوَاللَّهِ لَا يَمَلُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى تَمَلُّوا وَلَكِنَّ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيْهِ مَا دَاوَمَ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ
کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
رات جاگنے والی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ میں اختلاف
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے جبکہ ان کے پاس ایک عورت بیٹھی تھی۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ کون ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: فلاں عورت ہے جو رات کو سوتی نہیں۔ میں نے اس کی نماز کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’رہنے دو۔ اتنا کام اختیار کرو جس کی تم (ہمیشہ) طاقت رکھ سکتی و۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ (ثواب دینے سے) نہیں اکتائے گا۔ تم ہی (نیکی کرنے سے) اکتا جاؤ گے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ دینی کام زیادہ اچھا لگتا تھا جس پر اس کام والا ہمیشگی کرے۔
تشریح :
(۱)’’رہنے دو‘‘ ممکن ہے خطاب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہو، یعنی زیادہ تعریف نہ کرو کیونکہ ہمیشہ ساری رات جاگنا افضل نہیں اور ممکن ہے خطاب اس عورت کو ہو کہ اتنی عبادت نہ کیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ طبیعت تھک کر، پھر عبادت سے اکتا جائے۔ (۲)’’ہمیشگی کرے‘‘ کسی نفل کام پر دوام ہوسکتا ہے، البتہ اسے فرض سمجھتے ہوئے نہیں، مستحب سمجھتے ہوئے دوام کرے تو کوئی حرج نہیں۔ (۳)اللہ تعالیٰ بندے سے وہی معاملہ کرتا ہے جو بندہ اللہ سے کرتا ہے۔ اگر بندہ اللہ کی طرف ہمیشہ متوجہ رہے تو اللہ رب العزت بھی بندے پر مسلسل نظررحمت رکھتا ہےا ور اگر بندہ اعراض کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اعراض فرماتا ہے۔
(۱)’’رہنے دو‘‘ ممکن ہے خطاب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہو، یعنی زیادہ تعریف نہ کرو کیونکہ ہمیشہ ساری رات جاگنا افضل نہیں اور ممکن ہے خطاب اس عورت کو ہو کہ اتنی عبادت نہ کیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ طبیعت تھک کر، پھر عبادت سے اکتا جائے۔ (۲)’’ہمیشگی کرے‘‘ کسی نفل کام پر دوام ہوسکتا ہے، البتہ اسے فرض سمجھتے ہوئے نہیں، مستحب سمجھتے ہوئے دوام کرے تو کوئی حرج نہیں۔ (۳)اللہ تعالیٰ بندے سے وہی معاملہ کرتا ہے جو بندہ اللہ سے کرتا ہے۔ اگر بندہ اللہ کی طرف ہمیشہ متوجہ رہے تو اللہ رب العزت بھی بندے پر مسلسل نظررحمت رکھتا ہےا ور اگر بندہ اعراض کرے تو اللہ تعالیٰ بھی اعراض فرماتا ہے۔