سنن النسائي - حدیث 1639

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب إِحْيَاءِ اللَّيْلِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي وَبَقِيَّةُ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ عَنْ أَبِيهِ وَكَانَ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ رَاقَبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّيْلَةَ كُلَّهَا حَتَّى كَانَ مَعَ الْفَجْرِ فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ جَاءَهُ خَبَّابٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي لَقَدْ صَلَّيْتَ اللَّيْلَةَ صَلَاةً مَا رَأَيْتُكَ صَلَّيْتَ نَحْوَهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجَلْ إِنَّهَا صَلَاةُ رَغَبٍ وَرَهَبٍ سَأَلْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فِيهَا ثَلَاثَ خِصَالٍ فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً سَأَلْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يُهْلِكَنَا بِمَا أَهْلَكَ بِهِ الْأُمَمَ قَبْلَنَا فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يُظْهِرَ عَلَيْنَا عَدُوًّا مِنْ غَيْرِنَا فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُ رَبِّي أَنْ لَا يَلْبِسَنَا شِيَعًا فَمَنَعَنِيهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1639

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل ساری رات جاگنے (عبادت کرنے)کا بیان حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، یہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر میں شریک وئے تھے، انھوں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغور دیکھا کہ آپ ساری رات نماز پڑھتے رہے، حتی کہ فجر ہوگئی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز سے سلام پھیرا (فارغ ہوئے) تو خباب آپ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! آج رات آپ نے اتنی نماز پڑھی ہے کہ میں نے آپ کو اتنی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں، یہ رغبت اور رہبت (خوفِ الٰہی) والی نماز تھی۔ میں نے اس میں اپنے رب تعالیٰ سے تین چیزوں کا سوال کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دو چیزیں دے دیں، ایک نہیں دی۔ میں نے اپنے رب عزوجل سے سوال کیا تھا کہ ہمیں ان عذابوں سے ہلاک نہ کرے جن کے ساتھ پہلی امتوں کو ہلاک کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے میری یہ بات مان لی۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ ہم پر ہمارے کافر دشمنوں کو مکمل غلبہ نہ دے۔ اللہ تعالیٰ نے میری یہ بات بھی مان لی، پھر میں نے اپنے رب سے یہ سوال کیا کہ ہمیں گروہوں اور فرقوں میں نہ بانٹ دینا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات نہیں مانی۔‘‘
تشریح : (۱)عموماً ساری رات نہیں جاگنا چاہیے کیونکہ اس سے جسمانی ضعف پیدا ہوگا۔ ہوسکتا ہے پھر فرائض ادا کرنے کے بھی قابل نہ رہے، البتہ کبھی کبھار یا مخصوص راتوں میں ساری رات جاگا جاسکتا ہے۔ غالباً ترجمۃ الباب سے امام صاحب رحمہ اللہ کی یہی غرض معلوم ہوتی ہے۔ (۲)اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے آخری دعا قبول نہیں فرمائی۔ جس طرح کفروباطل کو کسی دور میں بھی مکمل ختم نہیں کیا گیا۔ اسی طرح اختلاف اور فرقہ بندی بھی کلیتاً ختم نہیں ہوسکتی۔ اگر اختلاف ختم ہونا ممکن ہوتا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جیسی مقدس اور بے غرض جماعت میں اختلاف نہ ہوتا، البتہ یہ ضروری ہے کہ اختلاف کو مخالفت نہ بنایا جائے، بلکہ اختلاف کو، اگر وہ نیک نیتی کے ساتھ ہے، گوارا کیا جائے۔ ویسے بھی ہر شخص کو اس جہان میں رہنے کا حق ہے، لہٰذا تشدد نہ کیا جائے۔ اختلافات اگر افہام و تفہیم سے ختم ہوجائیں تو بہت اچھی بات ہے ورنہ انھیں اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر چھوڑ دیا جائے۔ ضروری نہیں کہ ان کی بنا پر لڑائی کی جائے یا کفر کے فتوے لگائے جائیں یا قتل و قتال کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ چیزیں ان کے لیے ہیں جو سرے سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ نہیں پڑھتے۔ عجب بات ہے کہ کافروں کے بجائے اسلامی فرقوں سے جنگ کی جائے۔ اعافنا اللہ منہ۔ (۳)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر انتہائی شفیق اور مہربان تھے۔ (۱)عموماً ساری رات نہیں جاگنا چاہیے کیونکہ اس سے جسمانی ضعف پیدا ہوگا۔ ہوسکتا ہے پھر فرائض ادا کرنے کے بھی قابل نہ رہے، البتہ کبھی کبھار یا مخصوص راتوں میں ساری رات جاگا جاسکتا ہے۔ غالباً ترجمۃ الباب سے امام صاحب رحمہ اللہ کی یہی غرض معلوم ہوتی ہے۔ (۲)اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے آخری دعا قبول نہیں فرمائی۔ جس طرح کفروباطل کو کسی دور میں بھی مکمل ختم نہیں کیا گیا۔ اسی طرح اختلاف اور فرقہ بندی بھی کلیتاً ختم نہیں ہوسکتی۔ اگر اختلاف ختم ہونا ممکن ہوتا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جیسی مقدس اور بے غرض جماعت میں اختلاف نہ ہوتا، البتہ یہ ضروری ہے کہ اختلاف کو مخالفت نہ بنایا جائے، بلکہ اختلاف کو، اگر وہ نیک نیتی کے ساتھ ہے، گوارا کیا جائے۔ ویسے بھی ہر شخص کو اس جہان میں رہنے کا حق ہے، لہٰذا تشدد نہ کیا جائے۔ اختلافات اگر افہام و تفہیم سے ختم ہوجائیں تو بہت اچھی بات ہے ورنہ انھیں اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر چھوڑ دیا جائے۔ ضروری نہیں کہ ان کی بنا پر لڑائی کی جائے یا کفر کے فتوے لگائے جائیں یا قتل و قتال کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ چیزیں ان کے لیے ہیں جو سرے سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ نہیں پڑھتے۔ عجب بات ہے کہ کافروں کے بجائے اسلامی فرقوں سے جنگ کی جائے۔ اعافنا اللہ منہ۔ (۳)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر انتہائی شفیق اور مہربان تھے۔