سنن النسائي - حدیث 1621

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب ذِكْرِ مَا يُسْتَفْتَحُ بِهِ الْقِيَامُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ عَنْ مَالِكٍ قَالَ حَدَّثَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ كُرَيْبٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ وَهِيَ خَالَتُهُ فَاضْطَجَعَ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَبْلَهُ قَلِيلًا أَوْ بَعْدَهُ قَلِيلًا اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الْآيَاتِ الْخَوَاتِيمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ أَوْتَرَ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1621

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل قیام اللیل کےآ غازکی دعائیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ ایک رات میں ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں سویا جو میری خالہ تھیں۔ میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی زوجۂ محترمہ بستر کے ملول میں لیٹ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے حتی کہ جب رات نصف ہوگئی یا معمولی کم و بیش، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ اٹھے۔ آپ اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ ملتے ہوئے اٹھ بیٹھے، پھر آپ نے سورۂ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں، پھر ایک لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف اٹھے اور اس سے وضو فرمایا اور بہترین وضو فرمایا، پھر نماز پڑھنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں بھی اٹھا اور میں نے اسی طرح کیا جس طرح آپ نے کیا تھا، پھر میں گیا اور آپ کے پہلو میں کھڑا ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر مروڑا۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو، پھر دو، پھر دو، پھر دو، پھردو، پھر ایک رکعت پڑھی، پھر لیٹ گئے حتی کہ مؤذن آپ کو جماعت کی اطلاع دینے آیا تو آپ نے دوہلکی رکعتیں پڑھیں۔
تشریح : (۱)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے توسط سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باقاعدہ رات گزارنے کی اجازت لی تھی۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما ان دنوں حیض کی حالت میں تھیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی کیفیت کو جاننا تھا۔ (۲)’’کان مروڑا‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہوگئے تھے۔ ان کو اپنی دائیں جانب کھڑا کرنے کے لیے ان کے کان سے پکڑ کر اپنی دائیں جانب کھڑا کیا۔ (۳) آپ کبھی کبھار تیرہ رکعت بھی پڑھ لیتے تھے اگرچہ اکثر معمول گیارہ کا تھا۔ بعض نے پہلی دو رکعتوں کو تحیۃ الوضوع یا افتتاح تہجد سمجھا ہے۔ گویا اصل تہجد گیارہ رکعت ہی تھیں۔ (۴)’’دوہلکی رکعتیں‘‘ مراد فجر کی سنتیں ہیں۔ (۵)اہل خانہ سے معاشرت اور چھوٹے بچوں پر شفقت اور نرمی سے پیش آنا چاہیے۔ (۶)چھوٹے بچے کی نماز صحیح ہے۔ (۷) وضو اچھے طریقے سے کرنا چاہیے لیکن کوشش کرنی چاہیے کہ پانی کم سے کم استعمال ہو۔ (۸)ایک باقاعدہ مؤذن مسجد میں مقرر کرنا چاہیے۔ (۹)نفلی نماز کی جماعت مشروع ہے۔ (۱۰)جس آدمی نے شروع نماز میں امامت کی نیت نہ کی ہو اس کی اقتدا میں بھی نماز پڑھنا جائز ہے۔ باب۱۰:جب رات کو تہجد کے لیے اٹھے تو مسواک کرے (۱)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے توسط سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باقاعدہ رات گزارنے کی اجازت لی تھی۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما ان دنوں حیض کی حالت میں تھیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی کیفیت کو جاننا تھا۔ (۲)’’کان مروڑا‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہوگئے تھے۔ ان کو اپنی دائیں جانب کھڑا کرنے کے لیے ان کے کان سے پکڑ کر اپنی دائیں جانب کھڑا کیا۔ (۳) آپ کبھی کبھار تیرہ رکعت بھی پڑھ لیتے تھے اگرچہ اکثر معمول گیارہ کا تھا۔ بعض نے پہلی دو رکعتوں کو تحیۃ الوضوع یا افتتاح تہجد سمجھا ہے۔ گویا اصل تہجد گیارہ رکعت ہی تھیں۔ (۴)’’دوہلکی رکعتیں‘‘ مراد فجر کی سنتیں ہیں۔ (۵)اہل خانہ سے معاشرت اور چھوٹے بچوں پر شفقت اور نرمی سے پیش آنا چاہیے۔ (۶)چھوٹے بچے کی نماز صحیح ہے۔ (۷) وضو اچھے طریقے سے کرنا چاہیے لیکن کوشش کرنی چاہیے کہ پانی کم سے کم استعمال ہو۔ (۸)ایک باقاعدہ مؤذن مسجد میں مقرر کرنا چاہیے۔ (۹)نفلی نماز کی جماعت مشروع ہے۔ (۱۰)جس آدمی نے شروع نماز میں امامت کی نیت نہ کی ہو اس کی اقتدا میں بھی نماز پڑھنا جائز ہے۔ باب۱۰:جب رات کو تہجد کے لیے اٹھے تو مسواک کرے