سنن النسائي - حدیث 162

صِفَةُ الْوُضُوءِ بَاب النُّعَاسِ صحيح أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَعَسَ الرَّجُلُ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ فَلْيَنْصَرِفْ لَعَلَّهُ يَدْعُو عَلَى نَفْسِهِ وَهُوَ لَا يَدْرِي

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 162

کتاب: وضو کا طریقہ اونگھ کا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کسی شخص کو نماز میں اونگھ آنے لگے تو وہ نماز چھوڑ کر پلٹ جائے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ انجانے میں اپنے آپ کو بددعا دے بیٹھے۔‘‘
تشریح : (۱) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اونگھ وضو کو نہیں توڑتی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز چھوڑنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ ہوسکتا ہے، نمازی اپنے آپ کو بے خیالی کی حالت میں بددعا دے بیٹھے، یہ نہیں کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے، نیز اس روایت کا یہ مطلب نہیں کہ اونگھ آتے ہی نماز چھوڑ دے بلکہ نماز مختصر کرکے نماز سے فارغ ہو اور پھر لیٹ جائے، البتہ اگر نیند کا غلبہ اتنا زیادہ ہو کہ دعائیں اور سورتیں پڑھنی مشکل ہوں تو نماز چھوڑ کر پہلے نیند پوری کرے، پھر نماز پڑھے۔ حدیث سے یہی صورت معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) اس حدیث مبارکہ میں عبادت کے دوران میں حضور قلب اور خشوع و خضوع کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ (۱) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اونگھ وضو کو نہیں توڑتی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز چھوڑنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ ہوسکتا ہے، نمازی اپنے آپ کو بے خیالی کی حالت میں بددعا دے بیٹھے، یہ نہیں کہ اس کا وضو ٹوٹ گیا ہے، نیز اس روایت کا یہ مطلب نہیں کہ اونگھ آتے ہی نماز چھوڑ دے بلکہ نماز مختصر کرکے نماز سے فارغ ہو اور پھر لیٹ جائے، البتہ اگر نیند کا غلبہ اتنا زیادہ ہو کہ دعائیں اور سورتیں پڑھنی مشکل ہوں تو نماز چھوڑ کر پہلے نیند پوری کرے، پھر نماز پڑھے۔ حدیث سے یہی صورت معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) اس حدیث مبارکہ میں عبادت کے دوران میں حضور قلب اور خشوع و خضوع کی ترغیب دلائی گئی ہے۔