سنن النسائي - حدیث 1618

كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب ذِكْرِ مَا يُسْتَفْتَحُ بِهِ الْقِيَامُ حسن صحيح أَخْبَرَنَا عِصْمَةُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَزْهَرُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ بِمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ قِيَامَ اللَّيْلِ قَالَتْ لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ شَيْءٍ مَا سَأَلَنِي عَنْهُ أَحَدٌ قَبْلَكَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ عَشْرًا وَيَحْمَدُ عَشْرًا وَيُسَبِّحُ عَشْرًا وَيُهَلِّلُ عَشْرًا وَيَسْتَغْفِرُ عَشْرًا وَيَقُولُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي وَعَافِنِي أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ضِيقِ الْمَقَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1618

کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل قیام اللیل کےآ غازکی دعائیں حضرت عاصم بن حمید بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کن الفاظ سے قیام اللیل کا افتتاح کیا کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: تم نے مجھ سے وہ چیز پوچھی ہے جو تم سے پہلے کسی نے نہیں پوچھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس دفعہ اللہ اکبر، دس دفعہ الحمدللہ، دس دفعہ سبحان اللہ، دس دفعہ (لاالٰہ الااللہ) اور دس دفعہ استغفراللہ کہتے تھے، پھر فرماتے: ’’اے اللہ! مجھے معاف فرما، مجھے ہدایت دے، مجھے رزق عطا فرما اور مجھے عافیت وصحت دے۔ اور میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونے کی تنگی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں۔‘‘
تشریح : قیام اللیل کے آغاز سے مراد یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لیے اٹھتے تو نماز تہجد سے پہلے یہ دعائیں پڑھا کرتے تھے۔ ان (گزشتہ اور آئندہ) دعاؤں میں بہت سی ایسی دعائیں ہیں جن کو ظاہر آپ کو ضروری نہیں مگر آپ نے اپنی امت کی تعلیم کے لیے وہ دعائیں پڑھیں کیونکہ امتیوں کو تو بہرصورت ان کی ضرورت ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ آپ کی دعائیں دراصل آپ کی امت کے لیے ہیں۔ (علاوہ ان دعاؤں کے جو آپ کے ساتھ مخصوص ہیں۔) قیام اللیل کے آغاز سے مراد یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کے لیے اٹھتے تو نماز تہجد سے پہلے یہ دعائیں پڑھا کرتے تھے۔ ان (گزشتہ اور آئندہ) دعاؤں میں بہت سی ایسی دعائیں ہیں جن کو ظاہر آپ کو ضروری نہیں مگر آپ نے اپنی امت کی تعلیم کے لیے وہ دعائیں پڑھیں کیونکہ امتیوں کو تو بہرصورت ان کی ضرورت ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ آپ کی دعائیں دراصل آپ کی امت کے لیے ہیں۔ (علاوہ ان دعاؤں کے جو آپ کے ساتھ مخصوص ہیں۔)