كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب التَّرْغِيبِ فِي قِيَامِ اللَّيْلِ صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَمِّي قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ ابْنِ إِسْحَقَ قَالَ حَدَّثَنِي حَكِيمُ بْنُ حَكِيمِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ حُنَيْفٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمِ بْنِ شِهَابٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى فَاطِمَةَ مِنْ اللَّيْلِ فَأَيْقَظَنَا لِلصَّلَاةِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى بَيْتِهِ فَصَلَّى هَوِيًّا مِنْ اللَّيْلِ فَلَمْ يَسْمَعْ لَنَا حِسًّا فَرَجَعَ إِلَيْنَا فَأَيْقَظَنَا فَقَالَ قُومَا فَصَلِّيَا قَالَ فَجَلَسْتُ وَأَنَا أَعْرُكُ عَيْنِي وَأَقُولُ إِنَّا وَاللَّهِ مَا نُصَلِّي إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا إِنَّمَا أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِنْ شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا قَالَ فَوَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ وَيَضْرِبُ بِيَدِهِ عَلَى فَخِذِهِ مَا نُصَلِّي إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا
کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
رات کی نماز (تہجد)کی ترغیب
حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت میرے اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے پاس تشریف لائے اور ہمیں نماز (تہجد) کے لیے جگایا، پھر اپنے گھر تشریف لے گئےا ور کافی دیر تک نماز پڑھتے رہے۔ آپ نے ہماری طرف سے کوئی آواز یا آہٹ نہ سنی تو دوبارہ تشریف لائے اور ہمیں پھر جگایا اور فرمایا: ’’اٹھو اور نماز پڑھو۔‘‘ میں آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! ہم تو وہی نماز پڑھیں گے جو اللہ نے ہماری قسمت میں لکھی ہے۔ ہماری روحیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اگر وہ چاہے گا تو ہمیں اٹھا دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ران مبارک پر ہاتھ مارتے واپس تشریف لے گئے اور فرما رہے تھے: ’’ہم وہی نماز پڑھیں گے جو اللہ نے ہماری قسمت میں لکھی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسان سب سے زیادہ کٹ حجت ہے۔
تشریح :
(۱)یہ حدیث سابقہ حدیث ہی کی تفصیل ہے۔ (۲)حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ کوئی گستاخی یا نافرمانی نہیں بلکہ نیند سے جگائے جانے پر فطری اظہار ہے جو غیراختیاری کے قریب ہے۔ (۳)’’گویا توبیخ کے طور پر حضرت علی کے الفاظ ہی کو ان سے مختلف لہجے میں دہرا رہے تھے۔ عام طور پر ناپسندیدگی کے وقت ایسے کیا جاتا ہے۔
(۱)یہ حدیث سابقہ حدیث ہی کی تفصیل ہے۔ (۲)حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ کوئی گستاخی یا نافرمانی نہیں بلکہ نیند سے جگائے جانے پر فطری اظہار ہے جو غیراختیاری کے قریب ہے۔ (۳)’’گویا توبیخ کے طور پر حضرت علی کے الفاظ ہی کو ان سے مختلف لہجے میں دہرا رہے تھے۔ عام طور پر ناپسندیدگی کے وقت ایسے کیا جاتا ہے۔