كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ ثُمَّ صَلَّى مِنْ الْقَابِلَةِ وَكَثُرَ النَّاسُ ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنْ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ يُفْرَضَ عَلَيْكُمْ وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ
کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
ماہ رمضان المبارک کی خصوصی نماز (تراویح)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز (تراویح) پڑھی۔ کچھ لوگ بھی آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے، پھر اگلی رات آپ نے (مسجد میں) نماز پڑھی تو لوگ پہلے سے زیادہ ہوگئے، پھر تیسری یا چوتھی رات تو سب لوگ ہی جمع ہوگئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا: ’’رات جو تم نے کیا میں دیکھ رہا تھا(یعنی تمھارا اجتماع اور ذوق و شوق) مگر مجھے آنے سے یہ چیز مانع تھی کہ مجھے خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض ہی نہ کردی جائے۔‘‘ اور یہ رمضان المبارک کی بات ہے۔
تشریح :
(۱)یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے فوائدومسائل حدیث نمبر:۱۶۰۰ (۲)مذکورہ روایت میں یہ ہے کہ تیسری یا چوتھی رات آپ تشریف نہ لائے جبکہ ایک صحیح روایت میں صراحت ہے کہ تین راتیں لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز تراویح پڑھی اور آپ نے انھیں تینوں راتیں آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے تھے۔ چوتھی رات آپ تشریف نہ لائے۔ دیکھیے: (مسند ابی یعلی بتحقیق شیختا ارشاد الحق الاثر، برقم:۱۷۹۶، وقال الذھبی: اسنادہ وسط، و میزان الاعتدال:۳؍۲۱۱، وصحیح ابن خزیمہ، رقم:۱۰۷۰، وصحیح ابن حیان، رقم:۲۴۵۱ فی مواضع) (۳)معلوم ہوا کہ لوگوں کا ذوق شوق اور نفل کام پر اصرار بھی فرضیت کا ایک سبب ہے جس طرح اور بھی بہت سے اسباب ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا امر بھی ہوگیا تو وہ فرض ہوجائے گاورنہ باوجود مداومت اور اصرار کے نفل ہی رہے گا۔ ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ نفل پر مداومت نہیں کرنی چاہیے۔ خصوصاً اب جبکہ فرضیت کا امکان ہی نہیں تو کسی بھی نفل پر مداومت، اصرار اور پابندی میں کوئی حرج نہیں۔
(۱)یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے فوائدومسائل حدیث نمبر:۱۶۰۰ (۲)مذکورہ روایت میں یہ ہے کہ تیسری یا چوتھی رات آپ تشریف نہ لائے جبکہ ایک صحیح روایت میں صراحت ہے کہ تین راتیں لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز تراویح پڑھی اور آپ نے انھیں تینوں راتیں آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے تھے۔ چوتھی رات آپ تشریف نہ لائے۔ دیکھیے: (مسند ابی یعلی بتحقیق شیختا ارشاد الحق الاثر، برقم:۱۷۹۶، وقال الذھبی: اسنادہ وسط، و میزان الاعتدال:۳؍۲۱۱، وصحیح ابن خزیمہ، رقم:۱۰۷۰، وصحیح ابن حیان، رقم:۲۴۵۱ فی مواضع) (۳)معلوم ہوا کہ لوگوں کا ذوق شوق اور نفل کام پر اصرار بھی فرضیت کا ایک سبب ہے جس طرح اور بھی بہت سے اسباب ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا امر بھی ہوگیا تو وہ فرض ہوجائے گاورنہ باوجود مداومت اور اصرار کے نفل ہی رہے گا۔ ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ نفل پر مداومت نہیں کرنی چاہیے۔ خصوصاً اب جبکہ فرضیت کا امکان ہی نہیں تو کسی بھی نفل پر مداومت، اصرار اور پابندی میں کوئی حرج نہیں۔