كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب قِيَامِ اللَّيْلِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّهُ لَقِيَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلَهُ عَنْ الْوَتْرِ فَقَالَ أَلَا أُنَبِّئُكَ بِأَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ بِوَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ قَالَ عَائِشَةُ ائْتِهَا فَسَلْهَا ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا فَقَالَ مَا أَنَا بِقَارِبِهَا إِنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا فَأَبَتْ فِيهَا إِلَّا مُضِيًّا فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ فَجَاءَ مَعِي فَدَخَلَ عَلَيْهَا فَقَالَتْ لِحَكِيمٍ مَنْ هَذَا مَعَكَ قُلْتُ سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ قَالَتْ مَنْ هِشَامٌ قُلْتُ ابْنُ عَامِرٍ فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ وَقَالَتْ نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرًا قَالَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَلَيْسَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَالَ قُلْتُ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنُ فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ فَبَدَا لِي قِيَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَلَيْسَ تَقْرَأُ هَذِهِ السُّورَةَ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُلْتُ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التَّخْفِيفَ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ أَنْ كَانَ فَرِيضَةً فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ فَبَدَا لِي وَتْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ وَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنْ اللَّيْلِ فَيَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَةِ يَجْلِسُ فَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَيَدْعُو ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَةً فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنَيَّ فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَ مَا سَلَّمَ فَتِلْكَ تِسْعُ رَكَعَاتٍ يَا بُنَيَّ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يَدُومَ عَلَيْهَا وَكَانَ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ نَوْمٌ أَوْ مَرَضٌ أَوْ وَجَعٌ صَلَّى مِنْ النَّهَارِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً وَلَا أَعْلَمُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ وَلَا قَامَ لَيْلَةً كَامِلَةً حَتَّى الصَّبَاحَ وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا فَقَالَ صَدَقَتْ أَمَا إِنِّي لَوْ كُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي مُشَافَهَةً قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ كَذَا وَقَعَ فِي كِتَابِي وَلَا أَدْرِي مِمَّنْ الْخَطَأُ فِي مَوْضِعِ وَتْرِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ
کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
رات کی نماز
حضرت سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملا اور ان سے نماز وتر کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: کیامیں تجھے اس شخصیت کے بارے میں نہ بتاؤں جو روئے زمین پر بسنے والے انسانوں میں سے سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز وتر کو جانتی ہو؟ سعد نے کہا: ہاں، ضرور۔ انھوں نے فرمایا: وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ان سے جاکر پوچھو، پھر واپس آکر مجھے بھی بتاؤ کہ انھوں نے کیا جواب دیا، چنانچہ میں حضرت حکیم بن افلح کے پاس آیا اور انھیں بھی ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ وہ کہنے لگے: میں تو ان کے پاس نہیں جاؤں گا کیونکہ میں نے ان سے گزارش کی تھی کہ آپ ان دو لڑنے والے گروہوں (عثمانی و علوی) کے بارے میں کچھ بھی نہ کہیں مگر انھوں نے میری بات نہیں مانی بلکہ اپنی مرضی کی۔ میں نے انھیں قسم دی (کہ وہ ضرور چلیں) تو وہ میرے ساتھ چل پڑے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: یہ تمھارے ساتھ کون ہے؟ میں نےکہا: سعد بن ہشام۔ انھوں نے فرمایا: کون سا ہشام؟ میں نے کہا: ہشام بن عامر۔ تو آپ نے ان کےلیے رحمت کی دعا کی اور فرمایا: عامر بہت اچھے انسان تھے۔ میرے ساتھی نے کہا: اے ام المومنین! آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کے بارے میں بتائیے۔تو فرمانے لگیں: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں (پڑھتا ہوں) انھوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ عین قرآن کے مطابق تھے۔ میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو میرے ذہن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل (رات کی عبادت) کا خیال آیا۔ میں نے کہا: اے ام المومنین! مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام اللیل کے بارے میں بتائیے۔ انھوں نے فرمایا: کیا تم یہ سورت (یایھا المزمل) نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں (پڑھتا ہوں۔) فرمانے لگیں: اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے شروع میں رات کا قیام فرض کیا تھا۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ایک سال تک قیام کرتے رہے حتی کہ ان کے پاؤں سوج گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آخری آیتیں (دوسرا رکوع) بارہ مہینے روک رکھیں، پھر ان آیات میں تخفیف نازل فرمائی تو قیام اللیل نفل بن گیا جبکہ پہلے فرض تھا۔ میں نے، پھر اٹھنے کا ارادہ کیا کہ اچانک میرے ذہن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز وتر کا خیال آگیا۔ میں نے کہا: اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز وتر کے بارے میں بتائیے۔ انھوں نے فرمایا: ہم رات کو آپ کی مسواک اور طہارت کا پانی تیار کرکے رکھ دیتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ جب پسند فرماتا آپ کو جگا دیتا۔ آپ (اٹھ کر) مسواک فرماتے اور وضو کرتے، پھر آٹھ رکعات اس طرح پڑھتے کہ ان میں سے کسی رکعت کے بعد نہیں بیٹھتے تھے مگر آٹھویں رکعت کے بعد بیٹھتے، اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے اور دعائیں کرتے، پھر اتنی آواز سے سلام کہتے کہ ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعت پڑھتے، پھر ایک رکعت پڑھتے۔ بیٹا! اس طرح یہ گیارہ رکعتیں بن گئی، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہوگئی اور بوجھل ہوگئے تو سات رکعات پڑھتے اور سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے۔ بیٹا! اس طرح یہ نو رکعتیں بن گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز شروع فرمالیتے تو مناسب سمجھتے تھے کہ اسے ہمیشہ پڑھا کریں اور اگر کبھی نیند یا بیماری یا کوئی تکلیف رات کی نماز سے رکاوٹ بن جاتی تو دن کو (بجائے گیارہ کے) بارہ رکعات پڑھ لیتے۔ اور مجھے علم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک رات میں پورا قرآن پڑھا ہو یا کبھی صبح تک ساری رات نماز پڑھتے رہے ہوں یا رمضان المبارک کے علاوہ کبھی پورا مہینہ روزے رکھے ہوں، پھر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان کے سامنے یہ پوری حدیث بیان کی۔ آپ فرمانے لگے: سچ کہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے۔ واللہ! اگر میں ان کے پاس جاتا ہوتا تو ضرور جاتا کہ وہ مجھے براہ راست یہ حدیث بیان فرمائیں۔
امام ابوعبدالرحمن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث میری کتاب میں ایسے ہی ہے۔ میں نہیں جانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بیان میں کس سے غلطی ہوگئی؟
تشریح :
(۱)امام نسائی رحمہ اللہ کے اس فرمان میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ رکعت وتر کے بیان میں کسی راوی سے خطا ہوگئی ہے کیونکہ یہاں دو رکعتوں کو ایک رکعت سے مقدم بیان کیا گیا ہے، حالانکہ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق صحیح یہ ہے کہ آپ نو رکعتیں اس طرح پڑھتے کہ صرف آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، پھر اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے اور دعائیں کرتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے اور نویں رکعت پڑھ کر بیٹھ جاتے اور ذکروددعا وغیرہ کے بعد آواز کے ساتھ سلام پھیرتے کہ ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے۔ اس طرح یہ گیارہ رکعتیں ہوگئیں۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث:۷۴۶) کسی راوی سے تقدیم و تاخیر ہوگئی۔ آگے نو رکعت وتر کے بیان سے بھی اس غلطی کی نشان دہی ہوتی ہے کیونکہ وہاں مسلم کی روایت کی طرح دو رکعتوں کو ایک رکعت سے مؤخر بتایا گیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ (۲)’’عین قرآن کے مطابق تھے۔‘‘ یعنی قرآن مجید میں جو اخلاق عالیہ فاضلہ تمام انبیاء و صلحا کے بیان کیے گئے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ سب بدرجۂ اتم پائے جاتے تھے اور جن چیزوں سے قرآن مجید میں روکا گیا ہے، ان کی گرد بھی آپ کو نہیں پہنچتی تھی۔ (۳)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کے مطابق ایک سال کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےبھی قیام اللیل کی فرضیت ساقط ہوگئی تھی، مگر قرآن مجید کے الفاظ میں دو امکان ہیں، ایک یہ کہ قیام اللیل صرف صحابہ سے ساقط کیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بدستور فرض رہا لیکن یہ مؤقف درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض سفروں میں تہجد پڑھنا ثابت نہیں جیسا کہ ایک دفعہ سفر میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی سوئے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی، کسی کو جاگ نہ آئی، تہجد بروقت پڑھنا تو کجا، نمازفجر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج چڑھے پڑھی، اسی طرح مزدلفہ کی رات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد پڑھنا منقول نہیں۔ اس سے تہجد کی فرضیت کے قائلین کا مؤقف مل نظر ٹھہرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ فرضیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ساقط کردی گئی، جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے۔ واللہ اعلم۔ (۴)قیام اللیل اور نماز وتر کوئی الگ الگ نمازیں نہیں بلکہ ایک ہی نماز کو وقت کی نسبت سے قیام اللیل کہا گیا اور رکعات کی تعداد کی نسبت سے وتر کہا گیا ہے۔ رمضان المبارک میں اسی کو تراویح اور عام دنوں میں اسی کو تہجد کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ عام دنوں میں یہ نماز سونے کے بعد اٹھ کر پڑھی جاتی ہے اور تہجد کے معنی بھی نیند سے اٹھنا ہیں۔ تراویح اس کو پڑھنے کی کیفیت کے لحاظ سے کہا جاتا ہے، یعنی وقفے وقفے سے آرام کرکے پڑھنا۔ تراوی میں ہر چار رکعت کے بعد کافی وقفہ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل یہ وقفہ تقریباً متروک ہوچکا ہے اور یہ ضروری بھی نہیں۔ (۵)رات کو جو نفل نماز بھی پڑھی جائے گی، اس کی تعداد طاق ہونی چاہیے، پھر ان سب کو وتر ہی کہا جائے گا، البتہ اگر دن کو قضا کرنی ہو تو طاق کے بجائے جفت پڑھی جائے گی کیونکہ طاق نفل نماز رات کے ساتھ خاص ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دن کو گیارہ کے بجائے بارہ رکعت پڑھنا صریح دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وتر نفل ہیں، فرض نہیں، نیز نفل کی بھی قضادی جاسکتی ہے۔ (۶)’’مجھے علم نہیں‘‘ مقصود یہ ہے کہ عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے جسم اور اس کے آرام و صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، ورنہ جسم عاجز آجائے گا، پھر نفل تو ایک طرف رہے فرض رہ جانے کی نوبت بھی آسکتی ہے۔ (۷)’’اگر میں ان کے پاس جاتا ہوتا‘‘ دراصل اس وقت غلط فہمی کی وجہ سے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہن میں سیاسی اختلافات پیدا ہوچکے تھے جس نے ان کو ایک دوسرے سے دور کردیا تھا۔ جنگ جمل اور جنگ صفین اسی دور کی تلخ یادیں ہیں۔ حضرت عائشہ، حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی ان اختلافات کی وجہ سے باہم شکر رنجی تھی، البتہ وہ سب نیک نیت تھے۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ (۸)سلف صالحین ہر کام میں اسوۂ رسول تلاش کرتے تھے کہ ان کی اقتدا کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ وقت بھی دیتے تھے اور علماء سے استفسار بھی کرتے اور اگر سفر کی ضرورت پیش آتی تو سفر بھی کرتے۔ رحمہ اللہ۔ (۹)جس سے سوال پوچھا جارہا ہے اگر اس سے بڑا عالم موجود ہے تو اسے چاہیے کہ سائل کی اس کی طرف رہنمائی کرے کیونکہ دین خیرخواہی کا نام ہے۔ (۱۰)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں زیادہ جانتی تھیں۔ (۱۱)محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر آدمی ہمیشگی کرے اگرچہ وہ کم ہی ہو۔ (۱۲)ساری ساری رات عبادت میں گزار دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں بلکہ اپنی آنکھوں، جسم اور اہل عیال کا بھی انسان پر حق ہے، البتہ کبھی کبھار یہ جائز ہے۔
(۱)امام نسائی رحمہ اللہ کے اس فرمان میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ رکعت وتر کے بیان میں کسی راوی سے خطا ہوگئی ہے کیونکہ یہاں دو رکعتوں کو ایک رکعت سے مقدم بیان کیا گیا ہے، حالانکہ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق صحیح یہ ہے کہ آپ نو رکعتیں اس طرح پڑھتے کہ صرف آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، پھر اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے اور دعائیں کرتے، پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے اور نویں رکعت پڑھ کر بیٹھ جاتے اور ذکروددعا وغیرہ کے بعد آواز کے ساتھ سلام پھیرتے کہ ہمیں سنائی دیتا، پھر سلام کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعتیں پڑھتے۔ اس طرح یہ گیارہ رکعتیں ہوگئیں۔ (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث:۷۴۶) کسی راوی سے تقدیم و تاخیر ہوگئی۔ آگے نو رکعت وتر کے بیان سے بھی اس غلطی کی نشان دہی ہوتی ہے کیونکہ وہاں مسلم کی روایت کی طرح دو رکعتوں کو ایک رکعت سے مؤخر بتایا گیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ (۲)’’عین قرآن کے مطابق تھے۔‘‘ یعنی قرآن مجید میں جو اخلاق عالیہ فاضلہ تمام انبیاء و صلحا کے بیان کیے گئے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں وہ سب بدرجۂ اتم پائے جاتے تھے اور جن چیزوں سے قرآن مجید میں روکا گیا ہے، ان کی گرد بھی آپ کو نہیں پہنچتی تھی۔ (۳)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کے مطابق ایک سال کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےبھی قیام اللیل کی فرضیت ساقط ہوگئی تھی، مگر قرآن مجید کے الفاظ میں دو امکان ہیں، ایک یہ کہ قیام اللیل صرف صحابہ سے ساقط کیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بدستور فرض رہا لیکن یہ مؤقف درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض سفروں میں تہجد پڑھنا ثابت نہیں جیسا کہ ایک دفعہ سفر میں سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بھی سوئے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی، کسی کو جاگ نہ آئی، تہجد بروقت پڑھنا تو کجا، نمازفجر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج چڑھے پڑھی، اسی طرح مزدلفہ کی رات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تہجد پڑھنا منقول نہیں۔ اس سے تہجد کی فرضیت کے قائلین کا مؤقف مل نظر ٹھہرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ فرضیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ساقط کردی گئی، جیسا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے۔ واللہ اعلم۔ (۴)قیام اللیل اور نماز وتر کوئی الگ الگ نمازیں نہیں بلکہ ایک ہی نماز کو وقت کی نسبت سے قیام اللیل کہا گیا اور رکعات کی تعداد کی نسبت سے وتر کہا گیا ہے۔ رمضان المبارک میں اسی کو تراویح اور عام دنوں میں اسی کو تہجد کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ عام دنوں میں یہ نماز سونے کے بعد اٹھ کر پڑھی جاتی ہے اور تہجد کے معنی بھی نیند سے اٹھنا ہیں۔ تراویح اس کو پڑھنے کی کیفیت کے لحاظ سے کہا جاتا ہے، یعنی وقفے وقفے سے آرام کرکے پڑھنا۔ تراوی میں ہر چار رکعت کے بعد کافی وقفہ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل یہ وقفہ تقریباً متروک ہوچکا ہے اور یہ ضروری بھی نہیں۔ (۵)رات کو جو نفل نماز بھی پڑھی جائے گی، اس کی تعداد طاق ہونی چاہیے، پھر ان سب کو وتر ہی کہا جائے گا، البتہ اگر دن کو قضا کرنی ہو تو طاق کے بجائے جفت پڑھی جائے گی کیونکہ طاق نفل نماز رات کے ساتھ خاص ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دن کو گیارہ کے بجائے بارہ رکعت پڑھنا صریح دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وتر نفل ہیں، فرض نہیں، نیز نفل کی بھی قضادی جاسکتی ہے۔ (۶)’’مجھے علم نہیں‘‘ مقصود یہ ہے کہ عبادت کے ساتھ ساتھ اپنے جسم اور اس کے آرام و صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، ورنہ جسم عاجز آجائے گا، پھر نفل تو ایک طرف رہے فرض رہ جانے کی نوبت بھی آسکتی ہے۔ (۷)’’اگر میں ان کے پاس جاتا ہوتا‘‘ دراصل اس وقت غلط فہمی کی وجہ سے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہن میں سیاسی اختلافات پیدا ہوچکے تھے جس نے ان کو ایک دوسرے سے دور کردیا تھا۔ جنگ جمل اور جنگ صفین اسی دور کی تلخ یادیں ہیں۔ حضرت عائشہ، حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے درمیان بھی ان اختلافات کی وجہ سے باہم شکر رنجی تھی، البتہ وہ سب نیک نیت تھے۔ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ (۸)سلف صالحین ہر کام میں اسوۂ رسول تلاش کرتے تھے کہ ان کی اقتدا کریں۔ اس مقصد کے لیے وہ وقت بھی دیتے تھے اور علماء سے استفسار بھی کرتے اور اگر سفر کی ضرورت پیش آتی تو سفر بھی کرتے۔ رحمہ اللہ۔ (۹)جس سے سوال پوچھا جارہا ہے اگر اس سے بڑا عالم موجود ہے تو اسے چاہیے کہ سائل کی اس کی طرف رہنمائی کرے کیونکہ دین خیرخواہی کا نام ہے۔ (۱۰)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے بارے میں زیادہ جانتی تھیں۔ (۱۱)محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر آدمی ہمیشگی کرے اگرچہ وہ کم ہی ہو۔ (۱۲)ساری ساری رات عبادت میں گزار دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں بلکہ اپنی آنکھوں، جسم اور اہل عیال کا بھی انسان پر حق ہے، البتہ کبھی کبھار یہ جائز ہے۔