كِتَابُ قِيَامِ اللَّيْلِ وَتَطَوُّعِ النَّهَارِ بَاب الْحَثِّ عَلَى الصَّلَاةِ فِي الْبُيُوتِ وَالْفَضْلِ فِي ذَلِكَ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ قَالَ سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ عُقْبَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ يُحَدِّثُ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا لَيَالِيَ حَتَّى اجْتَمَعَ إِلَيْهِ النَّاسُ ثُمَّ فَقَدُوا صَوْتَهُ لَيْلَةً فَظَنُّوا أَنَّهُ نَائِمٌ فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَتَنَحْنَحُ لِيَخْرُجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ مَا زَالَ بِكُمْ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صُنْعِكُمْ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهِ فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ
کتاب: رات کے قیام اور دن کی نفلی نماز کے متعلق احکام و مسائل
نفل نمازگھر میں پڑھنے کی تر غیب اور اس کی فضیلت
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں کھجور کی چٹائی کو کھڑا کرکے حجرہ سا بنالیا (تاکہ سکون سے رات کی نماز پڑھ سکیں) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی راتیں اس میں نماز پڑھی حتی کہ لوگ بھی آپ کے قریب جمع ہونے لگ گئے (اور آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھنے لگے) پھر ایک رات انھوں نے آپ کی آواز محسوس نہ کی۔ انھوں نے سمجھا کہ آپ سوئے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ کھنکارنے لگے تاکہ آپ (جاگ کر) ان کی طرف تشریف لے آئیں۔ (مگر آپ نہ نکلے، پھر صبح کے وقت) آپ نے فرمایا: ’جو کچھ تم کرتے رہے ہو میں دیکھتا رہا ہوں (مگر، اس لیے نہیں نکلا کہ) مجھے خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں (تمھارے ذوق شوق کی وجہ سے) تم پر رات کی نماز فرض ہی نہ کردی جائے۔ اور اگر تم پر فرض کردی جاتی تو تم اسے ادا نہ کر پاتے، لہٰذا اے لوگو رات کی نماز اپنے گھروں میں پڑھ لیا کرو کیونکہ فرض نماز کے علاوہ انسان کی افضل نماز وہ ہے جو گھر میں پڑھے۔‘‘
تشریح :
(۱)دوسری روایات میں صراحت ہے کہ یہ رمضان المبارک کی بات ہے اور یہاں رات کی نماز سے مراد تراویح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ سا بنانے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ معتکف ہوں گے ورنہ آپ رات کی نماز گھر میں پڑھا کرتے تھے۔ یا ممکن ہے کہ گھر میں کسی وجہ سے تنگی ہو اور آپ نے علیحدگی میں نماز پڑھنے کے لیے چٹائی کھڑی کی ہو۔ (۲)’’فرض نہ کردی جائے‘‘ رمضان المبارک میں تراویح کا فرض ہوجانا پانچ نمازوں میں اضافے کے مترادف نہیں کہ اعتراض پیدا ہوکہ (لا یبدل القول لذی) کے الفاظ (جو اللہ تعالیٰ نے لیلۃ الاسراء میں پانچ نماز کی فرضیت کے وقت فرمائے تھے) کے بعد تو فرضیت کا خطرہ نہیں تھا کیونکہ اس قول میں صرف روزانہ کی پانچ نمازوں میں اضافہ یا کمی کی نفی کی گئی ہے اور تراویح کی، بالفرض، فرضیت سے یومیہ نمازوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (۳)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فرضیت کا خطرہ ناپید ہوگیا، لہٰذا نماز تراویح کو مسجد میں مستقل باجماعت جاری کردیا گیا جو خلفائے راشدین کے دور سے لے کر اب تک بلانزاع امت میں جاری و ساری ہے اور اجماعی مسئلہ ہے اور سنت المسلمین بن چکا ہے۔ اب کسی مسجد کو اس سعادت سے محروم نہیں رکھا جائے گا، البتہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر گھر میں ادا کرنا چاہے تو بھی جائز ہے مگر ضروری ہے کہ وہ نماز تراویح میں قرآن مجید زیادہ پڑھنے کے قابل ہوتاکہ اصل مقصد پورا ہو، نہ کہ صرف رکعات کی گنتی پوری کرے۔
(۱)دوسری روایات میں صراحت ہے کہ یہ رمضان المبارک کی بات ہے اور یہاں رات کی نماز سے مراد تراویح ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ سا بنانے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ معتکف ہوں گے ورنہ آپ رات کی نماز گھر میں پڑھا کرتے تھے۔ یا ممکن ہے کہ گھر میں کسی وجہ سے تنگی ہو اور آپ نے علیحدگی میں نماز پڑھنے کے لیے چٹائی کھڑی کی ہو۔ (۲)’’فرض نہ کردی جائے‘‘ رمضان المبارک میں تراویح کا فرض ہوجانا پانچ نمازوں میں اضافے کے مترادف نہیں کہ اعتراض پیدا ہوکہ (لا یبدل القول لذی) کے الفاظ (جو اللہ تعالیٰ نے لیلۃ الاسراء میں پانچ نماز کی فرضیت کے وقت فرمائے تھے) کے بعد تو فرضیت کا خطرہ نہیں تھا کیونکہ اس قول میں صرف روزانہ کی پانچ نمازوں میں اضافہ یا کمی کی نفی کی گئی ہے اور تراویح کی، بالفرض، فرضیت سے یومیہ نمازوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (۳)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فرضیت کا خطرہ ناپید ہوگیا، لہٰذا نماز تراویح کو مسجد میں مستقل باجماعت جاری کردیا گیا جو خلفائے راشدین کے دور سے لے کر اب تک بلانزاع امت میں جاری و ساری ہے اور اجماعی مسئلہ ہے اور سنت المسلمین بن چکا ہے۔ اب کسی مسجد کو اس سعادت سے محروم نہیں رکھا جائے گا، البتہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر گھر میں ادا کرنا چاہے تو بھی جائز ہے مگر ضروری ہے کہ وہ نماز تراویح میں قرآن مجید زیادہ پڑھنے کے قابل ہوتاکہ اصل مقصد پورا ہو، نہ کہ صرف رکعات کی گنتی پوری کرے۔