سنن النسائي - حدیث 1586

كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ نُزُولُ الْإِمَامِ عَنْ الْمِنْبَرِ قَبْلَ فَرَاغِهِ مِنْ الْخُطْبَةِ صحيح أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَخْطُبُ إِذْ أَقْبَلَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَيْهِمَا السَّلَام عَلَيْهِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ فَنَزَلَ وَحَمَلَهُمَا فَقَالَ صَدَقَ اللَّهُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ رَأَيْتُ هَذَيْنِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ فِي قَمِيصَيْهِمَا فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى نَزَلْتُ فَحَمَلْتُهُمَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1586

کتاب: نماز عیدین کے متعلق احکام و مسائل خطبےسے فارغ ہو نے سے پہلےامام کا منبر سے اترنا حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ حسن و حسین رضی اللہ عنہم سامنے آگئے۔ انھوں نے سرخ قمیصیں پہن رکھی تھیں۔ وہ چلتے تھے تو (قمیصوں کی وجہ سے) لڑکھڑاتے تھے۔ (یعنی گرتے پڑتے آرہے تھے۔) آپ منبر سے اترے، انھیں اٹھایا اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے: (انما اموالکم واولادکم فتنۃ) ’’تمھارے مال و اولاد تمھارے لیے آزمائش ہیں۔‘‘ میں نے انھیں دیکھا کہ اپنی قمیصوں میں گرتے پڑتے آرہے ہیں تو میں صبر نہ کرسکا حتی کہ میں منبر سے اترا اور انھیں اٹھایا۔‘‘
تشریح : بچوں سے محبت اور شفقت انسانی تقاضا ہے، لہٰذا انھیں پیار کرنے اور تکلیف سے بچانے کے لیے خطبہ روکنا، منبر سے اترنا اور انھیں اٹھالینا عین فطرت انسانیہ کا تقاضا ہے، اگرچہ اس میں وقتی طور پر عبادت سے توجہ ہٹ جائے گی مگر انسان عبادت کے علاوہ اور احکام کا بھی مکلف ہے۔ اور ان سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ باقی رہی آزمائش تو انسان اور اس کی ہر چیز آزمائش ہے۔ اس سے مذمت ثابت نہیں ہوتی الایہ کہ انسان ان چیزوں اور کی وجہ سے گمراہ ہوجائے۔ اعاذ نااللہ۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے اسوۂ حسنہ تھے، اس لیے آپ اپنے ظاہری افعال میں عام انسانی جذبات ملحوظ رکھتے تھے، اپنے روحانی درجے اور رتبے کو لوگوں کے لیے تکلیف کا ذریعہ نہیں بناتے تھے۔ بچوں سے محبت اور شفقت انسانی تقاضا ہے، لہٰذا انھیں پیار کرنے اور تکلیف سے بچانے کے لیے خطبہ روکنا، منبر سے اترنا اور انھیں اٹھالینا عین فطرت انسانیہ کا تقاضا ہے، اگرچہ اس میں وقتی طور پر عبادت سے توجہ ہٹ جائے گی مگر انسان عبادت کے علاوہ اور احکام کا بھی مکلف ہے۔ اور ان سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ باقی رہی آزمائش تو انسان اور اس کی ہر چیز آزمائش ہے۔ اس سے مذمت ثابت نہیں ہوتی الایہ کہ انسان ان چیزوں اور کی وجہ سے گمراہ ہوجائے۔ اعاذ نااللہ۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے اسوۂ حسنہ تھے، اس لیے آپ اپنے ظاہری افعال میں عام انسانی جذبات ملحوظ رکھتے تھے، اپنے روحانی درجے اور رتبے کو لوگوں کے لیے تکلیف کا ذریعہ نہیں بناتے تھے۔