سنن النسائي - حدیث 1584

كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ الْجُلُوسُ بَيْنَ الْخُطْبَتَيْنِ وَالسُّكُوتُ فِيهِ حسن أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ سِمَاكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ قَائِمًا ثُمَّ يَقْعُدُ قَعْدَةً لَا يَتَكَلَّمُ فِيهَا ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ خُطْبَةً أُخْرَى فَمَنْ خَبَّرَكَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ قَاعِدًا فَلَا تُصَدِّقْهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1584

کتاب: نماز عیدین کے متعلق احکام و مسائل د وخطبوں کے درمیان خاموشی سےبیٹھنا حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ (پہلے) کھڑے ہوکر خطبہ ارشاد فرماتے، پھر (تھوڑی دیر کے لیے) بیٹھ جاتے اور اس دوران میں (کوئی تقریریا) بات چیت نہ کرتے، پھر کھڑے ہوجاتے اور دوسرا خطبہ ارشاد فرماتے، لہٰذا جو شخص تجھے بتائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے، اس کی تصدیق نہ کر۔
تشریح : (۱)دو خطبوں کے درمیان بیٹھے ہوئے خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس دوران میں خطبہ روک دینا چاہیے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ ذکر اذکار بھی نہیں کرسکتا۔ حدیث میں کلام کی نفی ہے۔ عرف عام میں ذکر کو کلام نہیں کیا جاتا، لہٰذا ذکر جائز ہے۔ (۲)خطبۂ جمعہ یا خطبۂ عید کھڑے ہوکر ہی دینا چاہیے الایہ کہ کوئی معقول عذر ہو، مثلاً: بیماری، معذوری وغیرہ۔ لیکن بلاوجہ بیٹھ کر خطبہ دینے کو معمول بنالینا خلاف سنت ہے۔ (۱)دو خطبوں کے درمیان بیٹھے ہوئے خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس دوران میں خطبہ روک دینا چاہیے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ ذکر اذکار بھی نہیں کرسکتا۔ حدیث میں کلام کی نفی ہے۔ عرف عام میں ذکر کو کلام نہیں کیا جاتا، لہٰذا ذکر جائز ہے۔ (۲)خطبۂ جمعہ یا خطبۂ عید کھڑے ہوکر ہی دینا چاہیے الایہ کہ کوئی معقول عذر ہو، مثلاً: بیماری، معذوری وغیرہ۔ لیکن بلاوجہ بیٹھ کر خطبہ دینے کو معمول بنالینا خلاف سنت ہے۔