سنن النسائي - حدیث 158

صِفَةُ الْوُضُوءِ بَاب الْوُضُوءِ مِنْ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ حسن أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَاصِمٍ أَنَّهُ سَمِعَ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ يُحَدِّثُ قَالَ أَتَيْتُ رَجُلًا يُدْعَى صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ فَقَعَدْتُ عَلَى بَابِهِ فَخَرَجَ فَقَالَ مَا شَأْنُكَ قُلْتُ أَطْلُبُ الْعِلْمَ قَالَ إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَطْلُبُ فَقَالَ عَنْ أَيِّ شَيْءٍ تَسْأَلُ قُلْتُ عَنْ الْخُفَّيْنِ قَالَ كُنَّا إِذَا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ أَمَرَنَا أَنْ لَا نَنْزِعَهُ ثَلَاثًا إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ وَلَكِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 158

کتاب: وضو کا طریقہ بول وبراز کی وجہ سے وضو حضرت زربن حبیش سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک آدمی کے پاس گیا جنھیں صفوان بن عسال کہا جاتا تھا۔ میں (انتظار میں) ان کے دروازے پر بیٹھ گیا۔ آپ باہر تشریف لائے تو پوچھا: کیسے آئے ہو؟ میں نے کہا: طلب علم کے لیے۔ انھوں نے فرمایا: فرشتے طالب علم کے طلب علم پر رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے پر جھکاتے ہیں۔ پھر انھوں نے پوچھا: تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: موزوں کے بارے میں۔ انھوں نے فرمایا: جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (کسی سفر میں) ہوتے تھے تو آپ ہمیں فرماتے تھے کہ ہم تین دن تک پیشاب یا پاخانے اور نیند کی وجہ سے موزے نہ اتاریں لیکن جنابت کی وجہ سے اتارنے ہوں گے۔
تشریح : (۱) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب، پاخانے اور نیند کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، نیا کرنا پڑے گا، ورنہ موزے اتارنے کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں۔ (۲) بعض کا کہنا ہے کہ فرشتوں کے پر جھکانے سے مراد تعظیم و احترام ہے، جیسے قرآن مجید میں ہے: (واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ) (بنی اسرآءیل ۲۴:۱۷) ’’اور ان دونوں (والدین) کے لیے نیاز مندی سے عاجزی کا بازو جھکائے رکھ۔‘‘ واللہ أعلم۔ (۳) اس حدیث میں طالب علم کا شرف و مرتبہ بھی بیان ہوا ہے کہ فرشتے اس کے لیے پر بچھاتے ہیں۔ (۴) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم سے سوال پوچھنے کے لیے ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (۱) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پیشاب، پاخانے اور نیند کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، نیا کرنا پڑے گا، ورنہ موزے اتارنے کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں۔ (۲) بعض کا کہنا ہے کہ فرشتوں کے پر جھکانے سے مراد تعظیم و احترام ہے، جیسے قرآن مجید میں ہے: (واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ) (بنی اسرآءیل ۲۴:۱۷) ’’اور ان دونوں (والدین) کے لیے نیاز مندی سے عاجزی کا بازو جھکائے رکھ۔‘‘ واللہ أعلم۔ (۳) اس حدیث میں طالب علم کا شرف و مرتبہ بھی بیان ہوا ہے کہ فرشتے اس کے لیے پر بچھاتے ہیں۔ (۴) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم سے سوال پوچھنے کے لیے ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔