سنن النسائي - حدیث 1579

كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ كَيْفَ الْخُطْبَةُ صحيح أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ يَحْمَدُ اللَّهَ وَيُثْنِي عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ يَقُولُ مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ ثُمَّ يَقُولُ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ وَكَانَ إِذَا ذَكَرَ السَّاعَةَ احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ وَعَلَا صَوْتُهُ وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ كَأَنَّهُ نَذِيرُ جَيْشٍ يَقُولُ صَبَّحَكُمْ مَسَّاكُمْ ثُمَّ قَالَ مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِأَهْلِهِ وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَإِلَيَّ أَوْ عَلَيَّ وَأَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1579

کتاب: نماز عیدین کے متعلق احکام و مسائل خطبہ کیسے شرو ع کیا جائے؟ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا خطبہ یوں شروع فرماتے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا بیان فرماتے جو اللہ تعالیٰ کی شان گرامی کے لائق ہے، پھر فرماتے: ’’جسے اللہ تعالیٰ راہ راست پر لے آئے، اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے، اسے کوئی راہ راست پر لانے والا نہیں۔ بلاشبہ سب سے زیادہ سچی بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا طریقہ ہے۔ اور بدترین کام وہ ہیں جنھیں (شریعت میں) اپنی طرف سے جاری کیا گیا۔ ہر ایسا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں لے جائے گی۔‘‘ پھر آپ فرماتے: ’’مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں (انگشت شہادت اور ساتھ والی) کی طرح (ملا کر) بھیجا گیا ہے۔ آپ جب قیامت کا ذکر فرماتے تو آپ کے رخسار مبارک سرخ ہوجاتے، آواز بلند ہوجاتی اور غصے کے آثار چہرے پر نمایاں ہوجاتے۔ یوں لگتا جیسے آپ کسی لشکر سے ڈرا رہے ہیں (یعنی اس کے حملے کی خبر دے رہے ہیں) کہ تم پر صبح حملہ کردے گا یا شام کو۔ (پھر فرماتے:) ’’جو شخص مال چھوڑجائے، وہ تو اس کے رشتے داروں کو ملے گا اور جو آدمی قرض یا چھوٹے چھوٹے بچے (جن کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے) چھوڑ جائے تو وہ میرے سپرد ہوں اور ان کے اخراجات اور قرض وغیرہ کی ادائیگی میرے ذمے ہوگی کیونکہ مومنین سے میرا تعلق اور رشتہ تمام رشتوں سے قوی اور مضبوط ہے۔‘‘
تشریح : (۱)ضروری نہیں کہ ہر خطبے میں یہی الفاظ اور مضمون ہو اور نہ یہ ممکن اور مناسب ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ خطبہ اس قسم کا ہونا چاہیے، یعنی اس کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا سے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ بھی خطبے کا لازمی جزو ہے۔ لوگوں کو شریعت حقہ کی پابندی اور بدعات سے احتراز کی طرف توجہ دلائی جائے۔ ان کو اللہ تعالیٰ اور قیامت سے ڈرایا جائے اور ضروری مسائل بیان کیے جائیںَ عنوان اور مضمون کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ (۲)’’بدعت‘‘ سے مراد ہر وہ کام ہے جس کی سرے سے کوئی اصل شریعت اسلامیہ میں نہ ہو اور اسے اپنی طرف سے یا کسی دوسرے مذہب والوں کی نقالی میں اسلام میں داخل کیا جائے اور اسے دین اسلام کا جزو یا کارِ ثواب خیال کیا ہے۔ یا اس کی اصل تو موجود ہو لیکن اس کے لیے ایسی کیفیت، کوئی وقت یا صورت اختراع کر لی جائے کہ جس کی شرع میں دلیل نہ ہو تو وہ بھی بدعت ہی ہوگی۔ دنیوی امور میں کوئی نئی چیز اختیار کرنا بدعت نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تراویح کی جماعت کو [انعمت البدعۃ] (صحیح البخاری، صلاۃ التراویح، حدیث:۲۰۱۰) کہنا لغت کے لحاظ سے ہے نہ کہ شرعاً۔ اسی طرح بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ بھی غلط ہے کیونکہ ہر شرعی بدعت گمراہی ہے، ا س کا مستحسن ہونا ممکن نہیں، تاہم اگر کوئی کام اصلاً شرع میں ثابت ہو مگر وصفاً ثابت نہ ہو، مثلاً: جماعت کے بعد شرعی حکم نہ سمجھ کر محض اتفاقیہ طور پر امام صاحب سے مصافحہ کرنا یا عید کے بعد گلے ملنا وغیرہ، تو ایسے کاموں کو بدعت نہیں کہا جائے گا کیونکہ انھیں سنت سمجھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ ایک قومی رواج کے طور پر کیا جاتا ہے جس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ بعض لوگ تشدد کرتے ہوئے یہ فرق نہیں کرتے۔ (۳)’’ان دو انگلیوں کی طرح‘‘ مراد یہ ہے کہ میری نبوت قیامت تک جاری رہے گی۔ اب نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی اور شریعت۔ میں پہلے آگیا ہوں۔ قیامت میرے بعد آرہی ہے۔ درمیان میں کسی اور نبی کا فاصلہ نہیں۔ اگرچہ اس میں ہزاروں سال لگ جائیں۔ (۴)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مومنین سے تعلق تمام رشتوں سے قوی اور مضبوط ہے۔ ہر رشتہ آپ پر فدا ہے۔ آپ سے محبت ایمان کا جزو ہے۔ یہ اٹوٹ رشتہ ہے۔ دنیا کے بعد آخرت میں بھی اور ہر خوف ناک موقع پر بھی قائم رہے گا۔ رسول اور نبی ہونے کے علاوہ آپ حاکم اور امیر بھی تھے اور حاکم و امیر اپنی رعایا کاذمے دار ہوتا ہے۔ حدیث میں مذکورہ اخراجات بیت المال سے پورے کیے جائیں گے۔ (۱)ضروری نہیں کہ ہر خطبے میں یہی الفاظ اور مضمون ہو اور نہ یہ ممکن اور مناسب ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ خطبہ اس قسم کا ہونا چاہیے، یعنی اس کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا سے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ بھی خطبے کا لازمی جزو ہے۔ لوگوں کو شریعت حقہ کی پابندی اور بدعات سے احتراز کی طرف توجہ دلائی جائے۔ ان کو اللہ تعالیٰ اور قیامت سے ڈرایا جائے اور ضروری مسائل بیان کیے جائیںَ عنوان اور مضمون کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ (۲)’’بدعت‘‘ سے مراد ہر وہ کام ہے جس کی سرے سے کوئی اصل شریعت اسلامیہ میں نہ ہو اور اسے اپنی طرف سے یا کسی دوسرے مذہب والوں کی نقالی میں اسلام میں داخل کیا جائے اور اسے دین اسلام کا جزو یا کارِ ثواب خیال کیا ہے۔ یا اس کی اصل تو موجود ہو لیکن اس کے لیے ایسی کیفیت، کوئی وقت یا صورت اختراع کر لی جائے کہ جس کی شرع میں دلیل نہ ہو تو وہ بھی بدعت ہی ہوگی۔ دنیوی امور میں کوئی نئی چیز اختیار کرنا بدعت نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تراویح کی جماعت کو [انعمت البدعۃ] (صحیح البخاری، صلاۃ التراویح، حدیث:۲۰۱۰) کہنا لغت کے لحاظ سے ہے نہ کہ شرعاً۔ اسی طرح بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ بھی غلط ہے کیونکہ ہر شرعی بدعت گمراہی ہے، ا س کا مستحسن ہونا ممکن نہیں، تاہم اگر کوئی کام اصلاً شرع میں ثابت ہو مگر وصفاً ثابت نہ ہو، مثلاً: جماعت کے بعد شرعی حکم نہ سمجھ کر محض اتفاقیہ طور پر امام صاحب سے مصافحہ کرنا یا عید کے بعد گلے ملنا وغیرہ، تو ایسے کاموں کو بدعت نہیں کہا جائے گا کیونکہ انھیں سنت سمجھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ ایک قومی رواج کے طور پر کیا جاتا ہے جس میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ بعض لوگ تشدد کرتے ہوئے یہ فرق نہیں کرتے۔ (۳)’’ان دو انگلیوں کی طرح‘‘ مراد یہ ہے کہ میری نبوت قیامت تک جاری رہے گی۔ اب نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی اور شریعت۔ میں پہلے آگیا ہوں۔ قیامت میرے بعد آرہی ہے۔ درمیان میں کسی اور نبی کا فاصلہ نہیں۔ اگرچہ اس میں ہزاروں سال لگ جائیں۔ (۴)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مومنین سے تعلق تمام رشتوں سے قوی اور مضبوط ہے۔ ہر رشتہ آپ پر فدا ہے۔ آپ سے محبت ایمان کا جزو ہے۔ یہ اٹوٹ رشتہ ہے۔ دنیا کے بعد آخرت میں بھی اور ہر خوف ناک موقع پر بھی قائم رہے گا۔ رسول اور نبی ہونے کے علاوہ آپ حاکم اور امیر بھی تھے اور حاکم و امیر اپنی رعایا کاذمے دار ہوتا ہے۔ حدیث میں مذکورہ اخراجات بیت المال سے پورے کیے جائیں گے۔