سنن النسائي - حدیث 1578

كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ الْإِنْصَاتُ لِلْخُطْبَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ أَنْصِتْ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1578

کتاب: نماز عیدین کے متعلق احکام و مسائل خطبےمیں کسی کو خاموش کرانا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تو نے امام صاحب کے خطبے کے دوران میں اپنے ساتھی کو زبان سے کہا: چپ رہ تو تو نے بھی فضول کام کیا۔‘‘
تشریح : یہ حدیث خطبۂ جمعہ کے بارے میں جیسا کہ بعض روایات میں یوم الجمعۃ کی صراحت ہے۔ جبکہ یہاں امام صاحب رحمہ اللہ کا استدلال (والامام یخطب) ’’اور امام خطبہ دے رہا ہو‘‘ کے عموم سے ہے۔ لگتا ہے ان کے نزدیک نماز عید کا خطبہ، خطبۂ جمعہ کی مثل ہے، جس سے اس کا سننا بھی ضروری ٹھہرتا ہے، حالانکہ حدیث: ۱۵۷۲ میں خطبۂ عید سننے یا نہ سننے کی اجازت مروی ہے۔ بنابریں خطبۂ عید کو خطبۂ جمعۃ المبارک پر قیاس کرنا یا اس کی مثل ٹھہرانا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ خطبہ لجمعہ سننا واجب ہے، اور واجب پر غیرواجب کا قیاس درست نہیںَ علامہ سندھی رحمہ اللہ نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ جس کا ماحصل یہ ہے کہ جو جانا چاہے جاسکتا ہے لیکن جو بیٹھ رہے اس کے لیے خطبۂ عید سننا ضروری ہے اور اثنائے خطبہ کلام درست نہیں، لیکن یہ تطبیق محل نظر ہے کیونکہ اصول ہے کہ اگر نص مطلق ہو تو اسے مقید پر محمول کرتے ہیں اور یہاں یہی صورت حاصل ہے کیونکہ اسی حدیث کے ایک طریق میں یوم الجمعۃ کی قید بھی موجود ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ صرف خطبہ جمعہ ہی میں خاموشی ضروری ہوگی اور حدیث میں واردوعید بھی صرف خطبۂ جمعہ سے متعلق ہے، ہاں اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ خطبۂ عید بھی توجہ اور انہماک سے سننا مستحب ہے۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی:۱۷؍۲۰۵) (۲)زبان سے روکنا اس لیے منع ہے کہ بسااوقات چپ کرانے والوں کا شور بولنے والے سے بڑھ جاتا ہے، لہٰذا اشارے سے کام لیا جائے تاکہ خطبے میں سکون رہے۔ (۳)’’فضول کام کیا‘‘ یعنی تو نے اپنے جمعے کا ثواب ضائع کرلیا کیونکہ دوران جمعہ میں فضول کام کرنا ثواب کو باطل کردیتا ہے۔ یہ حدیث خطبۂ جمعہ کے بارے میں جیسا کہ بعض روایات میں یوم الجمعۃ کی صراحت ہے۔ جبکہ یہاں امام صاحب رحمہ اللہ کا استدلال (والامام یخطب) ’’اور امام خطبہ دے رہا ہو‘‘ کے عموم سے ہے۔ لگتا ہے ان کے نزدیک نماز عید کا خطبہ، خطبۂ جمعہ کی مثل ہے، جس سے اس کا سننا بھی ضروری ٹھہرتا ہے، حالانکہ حدیث: ۱۵۷۲ میں خطبۂ عید سننے یا نہ سننے کی اجازت مروی ہے۔ بنابریں خطبۂ عید کو خطبۂ جمعۃ المبارک پر قیاس کرنا یا اس کی مثل ٹھہرانا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ خطبہ لجمعہ سننا واجب ہے، اور واجب پر غیرواجب کا قیاس درست نہیںَ علامہ سندھی رحمہ اللہ نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ جس کا ماحصل یہ ہے کہ جو جانا چاہے جاسکتا ہے لیکن جو بیٹھ رہے اس کے لیے خطبۂ عید سننا ضروری ہے اور اثنائے خطبہ کلام درست نہیں، لیکن یہ تطبیق محل نظر ہے کیونکہ اصول ہے کہ اگر نص مطلق ہو تو اسے مقید پر محمول کرتے ہیں اور یہاں یہی صورت حاصل ہے کیونکہ اسی حدیث کے ایک طریق میں یوم الجمعۃ کی قید بھی موجود ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ صرف خطبہ جمعہ ہی میں خاموشی ضروری ہوگی اور حدیث میں واردوعید بھی صرف خطبۂ جمعہ سے متعلق ہے، ہاں اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ خطبۂ عید بھی توجہ اور انہماک سے سننا مستحب ہے۔ واللہ اعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی:۱۷؍۲۰۵) (۲)زبان سے روکنا اس لیے منع ہے کہ بسااوقات چپ کرانے والوں کا شور بولنے والے سے بڑھ جاتا ہے، لہٰذا اشارے سے کام لیا جائے تاکہ خطبے میں سکون رہے۔ (۳)’’فضول کام کیا‘‘ یعنی تو نے اپنے جمعے کا ثواب ضائع کرلیا کیونکہ دوران جمعہ میں فضول کام کرنا ثواب کو باطل کردیتا ہے۔