سنن النسائي - حدیث 1561

كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ بَاب الزِّينَةِ لِلْعِيدَيْنِ صحيح أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ وَعَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ وَجَدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حُلَّةً مِنْ إِسْتَبْرَقٍ بِالسُّوقِ فَأَخَذَهَا فَأَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ابْتَعْ هَذِهِ فَتَجَمَّلْ بِهَا لِلْعِيدِ وَالْوَفْدِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ أَوْ إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فَلَبِثَ عُمَرُ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجُبَّةِ دِيبَاجٍ فَأَقْبَلَ بِهَا حَتَّى جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قُلْتَ إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ ثُمَّ أَرْسَلْتَ إِلَيَّ بِهَذِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعْهَا وَتُصِبْ بِهَا حَاجَتَكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1561

کتاب: نماز عیدین کے متعلق احکام و مسائل عیدین میں زینت اختیار کرنا (بن سنورکرجانا) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بازار میں ریشم کا ایک جوڑا (برائے فروخت) دیکھا۔ وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور گزارش کی: اے اللہ کے رسول! اسے خریدلیں اور عید اور وفود سے ملاقات کے مواقع پر زیب تن فرمایا کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ (ریشم) تو ان لوگوں کا لباس ہے جن کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں۔‘‘ یا (فرمایا:) ’’اسے تو وہ لوگ پہنتے ہیں جن کو (آخرت میں) کچھ نہیں ملے گا۔‘‘ کچھ عرصہ، جتنا کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ٹھہرے رہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ریشم کا ایک جبہ بھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس جبے کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے تو فرمایا تھا: ’’یہ ان کا لباس ہے جن کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہیں۔‘‘ پھر آپ نے یہ جبہ مجھے بھیج دیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے بیچ کر اپنی ضروریات پوری کرو۔‘‘
تشریح : (۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جبہ نہیں خریدا اس کی وجہ اس کا ریشمی ہونا تھا، نہ کہ زیب و زینت ہونا، لہٰذا مصنف رحمہ اللہ کا باب پر اس روایت سے استدلال صحیح ہے۔ (۲)جس چیز کا استعمال بعض افراد کے لیے جائز ہو اور بعض کے لیے ناجائز، اسے کسی کو بھی بطور تحفہ دیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ خود استعمال نہ کرے گا تو دوسرے کو دے دے گا یا بیچ ڈالے گا۔ ایسی چیز کی تجارت بھی جائز ہے، جیسے ریشم وغیرہ، البتہ جو چیز مطلقاً حرام ہے وہ نہ کسی کو تحفے میں دی جاسکتی ہے اور نہ اس کی تجارت جائز ہے، جیسے شراب اور خنزیر وغیرہ۔ (۳)’’یہ ان کا لباس ہے۔۔۔الخ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ کافر لوگ ریشم پہنتے ہیں، مسلمان نہیں پہنتے بلکہ انھیں آخرت میں بطور اکرام ملے گا۔ (۴)’’جوریشم پہنے، اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کافر ہے کیونکہ ریشم پہننا گناہ ہے، کفر نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس پر مؤاخذہ ہوسکتا ہے اگر اس نے توبہ نہ کی۔ واللہ اعلم۔ (۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جبہ نہیں خریدا اس کی وجہ اس کا ریشمی ہونا تھا، نہ کہ زیب و زینت ہونا، لہٰذا مصنف رحمہ اللہ کا باب پر اس روایت سے استدلال صحیح ہے۔ (۲)جس چیز کا استعمال بعض افراد کے لیے جائز ہو اور بعض کے لیے ناجائز، اسے کسی کو بھی بطور تحفہ دیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ خود استعمال نہ کرے گا تو دوسرے کو دے دے گا یا بیچ ڈالے گا۔ ایسی چیز کی تجارت بھی جائز ہے، جیسے ریشم وغیرہ، البتہ جو چیز مطلقاً حرام ہے وہ نہ کسی کو تحفے میں دی جاسکتی ہے اور نہ اس کی تجارت جائز ہے، جیسے شراب اور خنزیر وغیرہ۔ (۳)’’یہ ان کا لباس ہے۔۔۔الخ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ کافر لوگ ریشم پہنتے ہیں، مسلمان نہیں پہنتے بلکہ انھیں آخرت میں بطور اکرام ملے گا۔ (۴)’’جوریشم پہنے، اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں‘‘ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کافر ہے کیونکہ ریشم پہننا گناہ ہے، کفر نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس پر مؤاخذہ ہوسکتا ہے اگر اس نے توبہ نہ کی۔ واللہ اعلم۔