سنن النسائي - حدیث 156

صِفَةُ الْوُضُوءِ بَاب مَا يَنْقُضُ الْوُضُوءَ وَمَا لَا يَنْقُضُ الْوُضُوءَ مِنْ الْمَذْيِ صحيح أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْمَرْوَزِيُّ عَنْ مَالِكٍ وَهُوَ ابْنُ أَنَسٍ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ الْمِقْدَادِ بْنِ الْأَسْوَدِ أَنَّ عَلِيًّا أَمَرَهُ أَنْ يَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الرَّجُلِ إِذَا دَنَا مِنْ أَهْلِهِ فَخَرَجَ مِنْهُ الْمَذْيُ مَاذَا عَلَيْهِ فَإِنَّ عِنْدِي ابْنَتَهُ وَأَنَا أَسْتَحِي أَنْ أَسْأَلَهُ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ ذَلِكَ فَلْيَنْضَحْ فَرْجَهُ وَيَتَوَضَّأْ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 156

کتاب: وضو کا طریقہ کون سی چیزیں وضو توڑتی ہیں اور کون سی نہیں۔مذی سے وضو کا بیان حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے بارے میں پوچھیں جو اپنی بیوی سے قریب ہوتا ہے تو اس سے مذی نکلتی ہے تو اس پر کیا واجب ہے؟ چونکہ آپ کی بیٹی میرے نکاح میں ہے، اس لیے مجھے یہ پوچھتے ہوئے شرم آتی ہے، چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی یہ صورت حال پائے تو وہ اپنی شرم گاہ دھولے اور نماز والا وضو کرلے۔‘‘
تشریح : (۱) مذی نجس ہے لیکن اس کے نکلنے سے غسل فرض نہیں ہوتا۔ اگر اس کا نکلنا یقینی ہے اور خارج ہوچکی ہو تو مذکورہ احادیث کی روشنی میں شرم گاہ اور اردگرد کے آلودہ مقام کو دھونا ضروری ہے بلکہ بعض احادیث سے خصیتین کو دھونے کا وجوب بھی ثابت ہوتا ہے۔ دیکھیے: (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: ۲۰۸) اور جس کپڑے کو مذی لگی ہو تو صحیح احادیث کی روشنی میں اس کے دھونے میں تخفیف ہے، یعنی متاثرہ مقام پر پانی کا ایک چلو بھر کر چھینٹے بھی مار لیے جائیں تو طہارت حاصل ہو جاتی ہے جیسا کہ حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کپڑوں پر مذی لگنے کے متعلق پوچھا کہ اس صورت میں طہارت کیسے حاصل ہوگی تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرے خیال میں جہاں مذی لگی ہو تو تیرے لیے چلو بھر پانی لے کر کپڑوں پر چھینٹے مار لینا کافی ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ کپڑے پر لگی مذی کے ازالے کے لیے کم از کم یہ شرعی رخصت موجود ہے۔ اگر کوئی دھونا چاہے تو اس کی مرضی ہے، بہرحال مذکورہ صورت سے طہارت حاصل ہو جائے گی۔ یہی موقف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی ہے جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ ہر صورت میں کپڑے کو دھویا ہی جائے۔ دیکھیے: (جامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث: ۱۱۵) لیکن درست موقف امام احمد رحمہ اللہ کا ہے اور اس کی حدیث سے تائید بھی ہوتی ہے۔ گویا احادیث میں جہاں دھونے کا حکم ہے، وہاں مراد شرمگاہ ہے اور جہاں چھینٹوں کا ذکر ہے وہاں مراد کپڑے پر چھینٹے مارنا ہے۔ یاد رہے کہ پانی میں ہاتھ ڈبو کر کپڑے پر مارے ہوئے چھینٹے کفایت نہیں کرتے کیونکہ حدیث میں ’’ایک چلو‘‘ کی قید ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) بعض احادیث میں [نضح] کا لفظ ہے اگرچہ اس سے مراد دھونا اور چھینٹے مارنا، دونوں ہوسکتے ہیں لیکن چونکہ بعض روایات میں [رش] کے الفاظ بھی ہیں، اس لیے مراد یہی ہے کہ کپڑوں پر چھینٹے کافی ہیں۔ واللہ أعلم۔ (۱) مذی نجس ہے لیکن اس کے نکلنے سے غسل فرض نہیں ہوتا۔ اگر اس کا نکلنا یقینی ہے اور خارج ہوچکی ہو تو مذکورہ احادیث کی روشنی میں شرم گاہ اور اردگرد کے آلودہ مقام کو دھونا ضروری ہے بلکہ بعض احادیث سے خصیتین کو دھونے کا وجوب بھی ثابت ہوتا ہے۔ دیکھیے: (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: ۲۰۸) اور جس کپڑے کو مذی لگی ہو تو صحیح احادیث کی روشنی میں اس کے دھونے میں تخفیف ہے، یعنی متاثرہ مقام پر پانی کا ایک چلو بھر کر چھینٹے بھی مار لیے جائیں تو طہارت حاصل ہو جاتی ہے جیسا کہ حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کپڑوں پر مذی لگنے کے متعلق پوچھا کہ اس صورت میں طہارت کیسے حاصل ہوگی تو نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیرے خیال میں جہاں مذی لگی ہو تو تیرے لیے چلو بھر پانی لے کر کپڑوں پر چھینٹے مار لینا کافی ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ کپڑے پر لگی مذی کے ازالے کے لیے کم از کم یہ شرعی رخصت موجود ہے۔ اگر کوئی دھونا چاہے تو اس کی مرضی ہے، بہرحال مذکورہ صورت سے طہارت حاصل ہو جائے گی۔ یہی موقف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی ہے جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ ہر صورت میں کپڑے کو دھویا ہی جائے۔ دیکھیے: (جامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث: ۱۱۵) لیکن درست موقف امام احمد رحمہ اللہ کا ہے اور اس کی حدیث سے تائید بھی ہوتی ہے۔ گویا احادیث میں جہاں دھونے کا حکم ہے، وہاں مراد شرمگاہ ہے اور جہاں چھینٹوں کا ذکر ہے وہاں مراد کپڑے پر چھینٹے مارنا ہے۔ یاد رہے کہ پانی میں ہاتھ ڈبو کر کپڑے پر مارے ہوئے چھینٹے کفایت نہیں کرتے کیونکہ حدیث میں ’’ایک چلو‘‘ کی قید ہے۔ واللہ أعلم۔ (۲) بعض احادیث میں [نضح] کا لفظ ہے اگرچہ اس سے مراد دھونا اور چھینٹے مارنا، دونوں ہوسکتے ہیں لیکن چونکہ بعض روایات میں [رش] کے الفاظ بھی ہیں، اس لیے مراد یہی ہے کہ کپڑوں پر چھینٹے کافی ہیں۔ واللہ أعلم۔