سنن النسائي - حدیث 1559

كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ خُرُوجُ الْعَوَاتِقِ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ فِي الْعِيدَيْنِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ كَانَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ لَا تَذْكُرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَالَتْ بِأَبَا فَقُلْتُ أَسَمِعْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ كَذَا وَكَذَا فَقَالَتْ نَعَمْ بِأَبَا قَالَ لِيَخْرُجْ الْعَوَاتِقُ وَذَوَاتُ الْخُدُورِ وَالْحُيَّضُ وَيَشْهَدْنَ الْعِيدَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ وَلْيَعْتَزِلْ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1559

کتاب: نماز عیدین کے متعلق احکام و مسائل عیدین میں بالغ اور پردہ نشین عورتوں کا (باہر) نکلنا حضرت حفصہ (بنت سیرین) سے روایت ہے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتی تھیں تو [بابا] ’’میرا باپ آپ پر فدا ہوجائے‘‘ ضرور کہتی تھیں۔ (ایک دفعہ) میں نے ان سے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ایسے (یعنی عیدین میں عورتوں کے باہر جانے کے بارے میں) فرماتے سنا ہے؟ تو انھوں نے کہا: ہاں، [بابا] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بالغ اور پردہ نشین حتی کہ حیض والی عورتیں بھی باہر عید کے لیے جائیں اور نماز عید اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں، البتہ حیض والی عورتیں نماز والی جگہ سے الگ بیٹھی رہیں۔‘‘
تشریح : (۱)تمام صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنھن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت رکھتے تھے اور اپنی ہر چیز آپ پر فدا کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ مگر مذکورہ صحابیہ کا یہ خصوصی اظہارِ عقیدت تھا کہ آپ کے غائبانہ ذکر پر بھی [بابا] جیسا پیار لفظ بولتی تھیں۔ ویسے صحابہ عموماً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کے وقت [بابی انت ومی یا رسول اللہ] ’’اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فد اہوجائیں‘‘ کے الفاظ سے اظہار محبت فرمایا کرتے تھے۔ رضی اللہ عنھم وارضاھم۔ (۲)عید خوشی اور شان و شوکت، نیز تشکرودعا کا خاص موقع ہے، اس لیے اس میں مردوں اور عورتوں سب کو حاضری کا حکم دیا حتیٰ کہ نماز نہ پڑھنے والی عورتوں کو بھی حاضری کی تاکید کی گئی تاکہ عید کے دیگر مقاصد پورے ہوسکیں۔ معلوم ہوا عید مسلمانوں کا شعار (خصوصی نشان) ہے۔ عوام الناس کے نزدیک بھی عید میں بلاوجہ شریک نہ ہونے والا اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ (۳)’’الگ بیٹھی رہیں‘‘ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ یہاں نماز والی جگہ کو مسجد کا حکم دیا گیا، لہٰذا حیض سے تکلیف نہ ہو، البتہ اس قسم کی عورتیں وعظ اور دعا میں شریک ہوں گی۔ (۴)عید کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد دعا بھی ہے، لہٰذا عید کے خطبے میں دعا کا خصوصی اہتمام کیا جائے جس میں نہ صرف اپنے لیے بلکہ جمیع مسلمانوں کے لیے دعائیں کی جائیں۔ (۱)تمام صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنھن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت رکھتے تھے اور اپنی ہر چیز آپ پر فدا کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ مگر مذکورہ صحابیہ کا یہ خصوصی اظہارِ عقیدت تھا کہ آپ کے غائبانہ ذکر پر بھی [بابا] جیسا پیار لفظ بولتی تھیں۔ ویسے صحابہ عموماً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کے وقت [بابی انت ومی یا رسول اللہ] ’’اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فد اہوجائیں‘‘ کے الفاظ سے اظہار محبت فرمایا کرتے تھے۔ رضی اللہ عنھم وارضاھم۔ (۲)عید خوشی اور شان و شوکت، نیز تشکرودعا کا خاص موقع ہے، اس لیے اس میں مردوں اور عورتوں سب کو حاضری کا حکم دیا حتیٰ کہ نماز نہ پڑھنے والی عورتوں کو بھی حاضری کی تاکید کی گئی تاکہ عید کے دیگر مقاصد پورے ہوسکیں۔ معلوم ہوا عید مسلمانوں کا شعار (خصوصی نشان) ہے۔ عوام الناس کے نزدیک بھی عید میں بلاوجہ شریک نہ ہونے والا اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ (۳)’’الگ بیٹھی رہیں‘‘ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ یہاں نماز والی جگہ کو مسجد کا حکم دیا گیا، لہٰذا حیض سے تکلیف نہ ہو، البتہ اس قسم کی عورتیں وعظ اور دعا میں شریک ہوں گی۔ (۴)عید کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد دعا بھی ہے، لہٰذا عید کے خطبے میں دعا کا خصوصی اہتمام کیا جائے جس میں نہ صرف اپنے لیے بلکہ جمیع مسلمانوں کے لیے دعائیں کی جائیں۔