سنن النسائي - حدیث 1558

كِتَابُ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ بَاب الْخُرُوجِ إِلَى الْعِيدَيْنِ مِنْ الْغَدِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ عَنْ أَبِي عُمَيْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ عُمُومَةٍ لَهُ أَنَّ قَوْمًا رَأَوْا الْهِلَالَ فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يُفْطِرُوا بَعْدَ مَا ارْتَفَعَ النَّهَارُ وَأَنْ يَخْرُجُوا إِلَى الْعِيدِ مِنْ الْغَدِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1558

کتاب: نماز عیدین کے متعلق احکام و مسائل عیدین کےلیے اگلے(دوسر ےدن )نکلنا حضرت ابوعمیر بن انس اپنے چچائوں سے بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے عید کا چاند دیکھا (مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بروقت اطلاع نہ مل سکی اور عام لوگوں نے روزہ رکھ لیا)، پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (اور اطلاع کی) تو آپ نے لوگوں کو دن چڑھ آنے کے بعد روزہ کھولنے کا اور اگلے دن نماز (عید) کے لیے نکلنے کا حکم دیا۔
تشریح : (۱)’’روزہ کھول دینے کا حکم دیا‘‘ گویا ضروری نہیں کہ سب لوگ یا ہر شہر اور بستی والے چاند دیکھیں بلکہ کچھ لوگ چاند دیکھ لیں تو وہ دوسرے لوگوں اور شہروں کے لیے بھی کافی ہوگا۔ ظاہر یہی ہے کہ چاند دیکھنے والے مذکورہ لوگ مدینہ سے باہر کے ہوں گے ورنہ وہ رات کے وقت ہی آپ کو اطلاع کردیتے۔ اگر مدینے سے باہر والے لوگوں کا چاند دیکھنا مدینہ منورہ والوں کے لیے کافی ہے تو دیگر شہروں کے لیے بھی یہی حکم ہوگا، الایہ کہ مطلع میں اتنا فرق ہو کہ چاند نظر آنے میں ایک دن یا زائد کا فرق ممکن ہو۔ اس صورت میں ان کا حساب الگ ہوگا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ چاند کی اطلاع جب بھی ملے، اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ روزہ رکھنے کی صورت میں اسے کھولنا واجب ہوگا۔ اگر اسی دن عید پڑھنا ممکن ہو تو اسی دن زوال سے قبل عید پڑھی جائے گی اور اگر زوال سے پہلے عید پڑھنا ممکن نہ ہو تو اگلے دن عید کی نماز ادا کی جائے گی۔ چونکہ چاند کی رؤیت میں عموماً ایک ہی دن کا فرق ممکن ہے، لہٰذا ایک دن سے زائد نماز عید مؤخر نہ کی جائے۔ احادیث میں بھی ایک ہی دن کا ذکر ہے۔ اس مسئلے میں دونوں عیدیں برابر ہیں۔ (۲) اگر بارش یا اندھیری وغیرہ کی وجہ سے اصل دن عید پڑھنا ممکن نہ ہو تو بھی یہی حکم ہے۔ (۳)’’نماز عید کے لیے نکلنے کا‘‘ اصل یہی ہے کہ نماز عید آبادی سے باہر کھلے میدان میں پڑھی جائے کہ اس میں شان و شوکت کا زیادہ اظہار ہے۔ اور یہ بھی عید کا ایک مقصدہے۔ بعض حضرات نے اس حکم کی علت یہ قرار دی ہے کہ چونکہ مسجد میں پوری آبادی کے لوگ سما نہیں سکتے، اس لیے جگہ کی تنگی کے پیش نظر باہر نکلنے کا حکم دیا۔ گویا اگر کہیں مسجد اور اس کے ساتھ اتنی جگہ خالی ہو کہ تمام لوگ اس میں آرام سے نماز پڑھ سکیں تو نماز عید مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے جیسا کہ حرمین (بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی شریف) میں ہوتا ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ مذکورہ حکم کی علت یہی ہو، لہٰذا سنت نبوی پر عمل ہی اولیٰ ہے۔ واللہ اعلم۔ (۱)’’روزہ کھول دینے کا حکم دیا‘‘ گویا ضروری نہیں کہ سب لوگ یا ہر شہر اور بستی والے چاند دیکھیں بلکہ کچھ لوگ چاند دیکھ لیں تو وہ دوسرے لوگوں اور شہروں کے لیے بھی کافی ہوگا۔ ظاہر یہی ہے کہ چاند دیکھنے والے مذکورہ لوگ مدینہ سے باہر کے ہوں گے ورنہ وہ رات کے وقت ہی آپ کو اطلاع کردیتے۔ اگر مدینے سے باہر والے لوگوں کا چاند دیکھنا مدینہ منورہ والوں کے لیے کافی ہے تو دیگر شہروں کے لیے بھی یہی حکم ہوگا، الایہ کہ مطلع میں اتنا فرق ہو کہ چاند نظر آنے میں ایک دن یا زائد کا فرق ممکن ہو۔ اس صورت میں ان کا حساب الگ ہوگا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ چاند کی اطلاع جب بھی ملے، اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ روزہ رکھنے کی صورت میں اسے کھولنا واجب ہوگا۔ اگر اسی دن عید پڑھنا ممکن ہو تو اسی دن زوال سے قبل عید پڑھی جائے گی اور اگر زوال سے پہلے عید پڑھنا ممکن نہ ہو تو اگلے دن عید کی نماز ادا کی جائے گی۔ چونکہ چاند کی رؤیت میں عموماً ایک ہی دن کا فرق ممکن ہے، لہٰذا ایک دن سے زائد نماز عید مؤخر نہ کی جائے۔ احادیث میں بھی ایک ہی دن کا ذکر ہے۔ اس مسئلے میں دونوں عیدیں برابر ہیں۔ (۲) اگر بارش یا اندھیری وغیرہ کی وجہ سے اصل دن عید پڑھنا ممکن نہ ہو تو بھی یہی حکم ہے۔ (۳)’’نماز عید کے لیے نکلنے کا‘‘ اصل یہی ہے کہ نماز عید آبادی سے باہر کھلے میدان میں پڑھی جائے کہ اس میں شان و شوکت کا زیادہ اظہار ہے۔ اور یہ بھی عید کا ایک مقصدہے۔ بعض حضرات نے اس حکم کی علت یہ قرار دی ہے کہ چونکہ مسجد میں پوری آبادی کے لوگ سما نہیں سکتے، اس لیے جگہ کی تنگی کے پیش نظر باہر نکلنے کا حکم دیا۔ گویا اگر کہیں مسجد اور اس کے ساتھ اتنی جگہ خالی ہو کہ تمام لوگ اس میں آرام سے نماز پڑھ سکیں تو نماز عید مسجد میں بھی پڑھی جاسکتی ہے جیسا کہ حرمین (بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی شریف) میں ہوتا ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ مذکورہ حکم کی علت یہی ہو، لہٰذا سنت نبوی پر عمل ہی اولیٰ ہے۔ واللہ اعلم۔