كِتَابُ صَلَاةِ الْخَوْفِ كِتَاب صَلَاةِ الْخَوْفِ صحيح أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ فَضَالَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ ح وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا حَيْوَةُ وَذَكَرَ آخَرَ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ يُحَدِّثُ عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ هَلْ صَلَّيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَعَمْ قَالَ مَتَى قَالَ عَامَ غَزْوَةِ نَجْدٍ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعَصْرِ وَقَامَتْ مَعَهُ طَائِفَةٌ وَطَائِفَةٌ أُخْرَى مُقَابِلَ الْعَدُوِّ وَظُهُورُهُمْ إِلَى الْقِبْلَةِ فَكَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرُوا جَمِيعًا الَّذِينَ مَعَهُ وَالَّذِينَ يُقَابِلُونَ الْعَدُوَّ ثُمَّ رَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً وَاحِدَةً وَرَكَعَتْ مَعَهُ الطَّائِفَةُ الَّتِي تَلِيهِ ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدَتْ الطَّائِفَةُ الَّتِي تَلِيهِ وَالْآخَرُونَ قِيَامٌ مُقَابِلَ الْعَدُوِّ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَامَتْ الطَّائِفَةُ الَّتِي مَعَهُ فَذَهَبُوا إِلَى الْعَدُوِّ فَقَابَلُوهُمْ وَأَقْبَلَتْ الطَّائِفَةُ الَّتِي كَانَتْ مُقَابِلَ الْعَدُوِّ فَرَكَعُوا وَسَجَدُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ كَمَا هُوَ ثُمَّ قَامُوا فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً أُخْرَى وَرَكَعُوا مَعَهُ وَسَجَدَ وَسَجَدُوا مَعَهُ ثُمَّ أَقْبَلَتْ الطَّائِفَةُ الَّتِي كَانَتْ مُقَابِلَ الْعَدُوِّ فَرَكَعُوا وَسَجَدُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ وَمَنْ مَعَهُ ثُمَّ كَانَ السَّلَامُ فَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمُوا جَمِيعًا فَكَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَانِ وَلِكُلِّ رَجُلٍ مِنْ الطَّائِفَتَيْنِ رَكْعَتَانِ رَكْعَتَانِ
کتاب: نماز کے خوف سے متعلق احکام و مسائل
نماز خوف سے متعلق احکام ومسائل
حضرت مروان بن حکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف پڑھی ہے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: کب؟ آپ نے فرمایا: غزوۂ نجد کے سال۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے لیے اٹھے اور ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوا جبکہ دوسرا گروہ دشمن کے مقابل تھا اور ان کی پشت قبلے کی طرف تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا (یعنی نماز شروع کرلی) آپ کے ساتھ والوں نے بھی اور انھوں نے بھی جو دشمن کے مقابل تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع فرمایا تو آپ کے ساتھ والے گروہ نے بھی رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ فرمایا تو آپ کے ساتھ والے گروہ نے بھی سجدہ کیا جب کہ دوسرے گروہ والے دشمن کے مقابل کھڑے رہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے تو آپ کے ساتھ والے بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ دشمن کی طرف جا کر ان کے مقابل کھڑے ہوگئے اور جو پہلے دشمن کے مقابل تھے انھوں نے آپ کے پیچھے آکر اپنا رکوع اور سجود کیا (یعنی ایک رکعت اپنے طور پر پڑھ لی۔) اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کھڑے رہے (جس طرح آپ کھڑے تھے۔)، پھر وہ کھڑے ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری رکعت کا رکوع فرمایا انھوں نے بھی آپ کے ساتھ رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ فرمایا تو انھوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدے کیے، پھر وہ گروہ بھی آگیا جو دشمن کے مقابل تھا۔ انھوں نے (اپنے طور پر) رکوع اور سجود کیے۔ (یعنی اپنی بقیہ رکعت پڑھ لی۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ والے اس دوران میں بیٹھے رہے۔ پھر سلام کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا اور سب (دونوں گروہوں) نے سلام پھیردیا، اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں ہوگئیں اور دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کی بھی دو رکعتیں ہوگئیں۔
تشریح :
(۱)یہ نماز خوف کی ایک اور صورت ہے۔ یہ اس وقت قابل عمل ہوگی جب خوف زیادہ نہ ہو کیونکہ شروع نماز میں بھی سب اکٹھے تھے اور آخر نماز میں بھی سب اکٹھے تھے، بلکہ آخر میں تو دشمن کے مقابل کوئی بھی نہ رہا۔ سب آپ کے پیچھے تھے۔ ایک گروہ اپنی نماز کی باقی رکعت پڑھ رہے تھے اور دوسرے ویسے آپ کے پیچھے بیٹھے تھے۔ سلام سب نے بیک وقت پھیرا۔ (۲)نجد اونچے علاقے کو کہتے ہیں اور یہ کئی علاقوں میں تھا، مثلاً: نجد حجاز، نجد عراق اور نجد یمن۔ مندرجہ بالا حدیث میں نجد سے نجد حجاز مراد ہے۔ اور بددعا والی حدیث میں نجد عراق۔ اس کا پتہ قرائن اور دیگر احادیث سے چلتا ہے۔
(۱)یہ نماز خوف کی ایک اور صورت ہے۔ یہ اس وقت قابل عمل ہوگی جب خوف زیادہ نہ ہو کیونکہ شروع نماز میں بھی سب اکٹھے تھے اور آخر نماز میں بھی سب اکٹھے تھے، بلکہ آخر میں تو دشمن کے مقابل کوئی بھی نہ رہا۔ سب آپ کے پیچھے تھے۔ ایک گروہ اپنی نماز کی باقی رکعت پڑھ رہے تھے اور دوسرے ویسے آپ کے پیچھے بیٹھے تھے۔ سلام سب نے بیک وقت پھیرا۔ (۲)نجد اونچے علاقے کو کہتے ہیں اور یہ کئی علاقوں میں تھا، مثلاً: نجد حجاز، نجد عراق اور نجد یمن۔ مندرجہ بالا حدیث میں نجد سے نجد حجاز مراد ہے۔ اور بددعا والی حدیث میں نجد عراق۔ اس کا پتہ قرائن اور دیگر احادیث سے چلتا ہے۔