سنن النسائي - حدیث 1538

كِتَابُ صَلَاةِ الْخَوْفِ كِتَاب صَلَاةِ الْخَوْفِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ عَمَّنْ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ ذَاتِ الرِّقَاعِ صَلَاةَ الْخَوْفِ أَنَّ طَائِفَةً صَفَّتْ مَعَهُ وَطَائِفَةٌ وِجَاهَ الْعَدُوِّ فَصَلَّى بِالَّذِينَ مَعَهُ رَكْعَةً ثُمَّ ثَبَتَ قَائِمًا وَأَتَمُّوا لِأَنْفُسِهِمْ ثُمَّ انْصَرَفُوا فَصَفُّوا وِجَاهَ الْعَدُوِّ وَجَاءَتْ الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى فَصَلَّى بِهِمْ الرَّكْعَةَ الَّتِي بَقِيَتْ مِنْ صَلَاتِهِ ثُمَّ ثَبَتَ جَالِسًا وَأَتَمُّوا لِأَنْفُسِهِمْ ثُمَّ سَلَّمَ بِهِمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1538

کتاب: نماز کے خوف سے متعلق احکام و مسائل نماز خوف سے متعلق احکام ومسائل حضرت صالح بن خوات نے اس صحابی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا جس نے غزوۂ ذات الرقاع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف پڑھی تھی کہ ایک گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بندی کی اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں رہا۔ آپ نے اپنے ساتھ والے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی، پھر آپ کھڑے رہے اور انھوں نے اپنی دوسری رکعت پڑھ لی، پھر وہ چلے گئے اور دشمن کے مقابلے میں صف بندی کرلی اور دوسرا گروہ آپ کے پیچھے آگیا۔ آپ نے انھیں باقی ماندہ (دوسری) رکعت پڑھادی، پھر آپ بیٹھے رہے اور انھوں نے اپنی دوسری رکعت مکمل کرلی، پھر آپ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔
تشریح : (۱)یہ نماز خوف کی ایک اور صورت ہے جس میں ہر گروہ کی دو رکعتیں اکٹھی پڑھی گئیں۔ ایک آپ کے ساتھ اور ایک الگ الگ۔ یہ صورت اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اس میں دوران نماز میں آنا جانا نہ ہوگا بلکہ دونوں رکعتیں متصل پڑھی جائیں گی۔ (۲)’’ذات الرقاع‘‘ رقاع جمع ہے ’’رقعہ‘‘ کی، اس کے معنی ہیں: ٹکڑا۔ اس جنگ کو غزوۂ ذات الرقاع یا تو اس لیے کہتے ہیں کہ اس غزوے میں جاتے ہوئے پتھروں کی وجہ سے مسلمانوں کے پاؤں زخمی ہوگئے اور انھیں پاؤں پر کپڑوں کے ٹکڑے باندھنے پڑے، یا اس لیے کہ اس علاقے کی زمین کے ٹکڑے مختلف رنگوں والے تھے، یعنی کچھ پہاڑیاں سرخ تھی، کچھ سفید اور کچھ سیاہ۔ واللہ اعلم۔ (۱)یہ نماز خوف کی ایک اور صورت ہے جس میں ہر گروہ کی دو رکعتیں اکٹھی پڑھی گئیں۔ ایک آپ کے ساتھ اور ایک الگ الگ۔ یہ صورت اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اس میں دوران نماز میں آنا جانا نہ ہوگا بلکہ دونوں رکعتیں متصل پڑھی جائیں گی۔ (۲)’’ذات الرقاع‘‘ رقاع جمع ہے ’’رقعہ‘‘ کی، اس کے معنی ہیں: ٹکڑا۔ اس جنگ کو غزوۂ ذات الرقاع یا تو اس لیے کہتے ہیں کہ اس غزوے میں جاتے ہوئے پتھروں کی وجہ سے مسلمانوں کے پاؤں زخمی ہوگئے اور انھیں پاؤں پر کپڑوں کے ٹکڑے باندھنے پڑے، یا اس لیے کہ اس علاقے کی زمین کے ٹکڑے مختلف رنگوں والے تھے، یعنی کچھ پہاڑیاں سرخ تھی، کچھ سفید اور کچھ سیاہ۔ واللہ اعلم۔