سنن النسائي - حدیث 153

صِفَةُ الْوُضُوءِ بَاب مَا يَنْقُضُ الْوُضُوءَ وَمَا لَا يَنْقُضُ الْوُضُوءَ مِنْ الْمَذْيِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ لِلْمِقْدَادِ إِذَا بَنَى الرَّجُلُ بِأَهْلِهِ فَأَمْذَى وَلَمْ يُجَامِعْ فَسَلْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَإِنِّي أَسْتَحِي أَنْ أَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ وَابْنَتُهُ تَحْتِي فَسَأَلَهُ فَقَالَ يَغْسِلُ مَذَاكِيرَهُ وَيَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 153

کتاب: وضو کا طریقہ کون سی چیزیں وضو توڑتی ہیں اور کون سی نہیں۔مذی سے وضو کا بیان حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میں نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا: جب کوئی آدمی اپنی بیوی سے دل لگی کرے اور اسے مذی آ جائے جب کہ اس نے جماع نہیں کیا (تو وہ کیا کرے؟) آپ یہ مسئلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھیں کیونکہ آپ کی بیٹی میرے نکاح میں ہے، اس لیے مجھے شرم آتی ہے۔ حضرت مقداد نے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ اپنی شرم گاہ وغیرہ دھو لے اور نماز والا وضو کرلے۔‘‘
تشریح : (۱) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے، نیز اس حدیث میں بھی وہی مسئلہ بیان ہوا ہے جو گزشتہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔ بنا بریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود معناً صحیح ہے۔ تفصیل ک ے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل، رقم: ۴۷، ۱۵۲ و صحیح سنن النسائي اللألباني، رقم ۱۵۳) (۲) [مذاکیرہ] اس سے مراد عضو مخصوص، خصیتین اور ارد گرد کی جگہ ہے کیونکہ مذی عضو سے نکل کر ادھر ادھر لگ جاتی ہے یا اس کے لگنے کا قوی احتمال ہے، اس لیے مناسب ہے کہ عضو کے ساتھ ساتھ اطراف کو بھی دھو لے تاکہ شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ خصیتین کو دھونے سے مذی بھی منطقع ہو جائے گی، یہ اضافی فائدہ ہے۔ واجب تو اتنی جگہ ہی دھونا ہے جہاں مذی لگی ہو، البتہ امام احمد رحمہ اللہ عضو مخصوص اور خصیتین کو دھونا ضروری سمجھتے ہیں، ظاہر الفاظ اسی کی تائید کرتے ہیں بلکہ ایک روایت میں خصیتین کے دھونے کا صراحتاً حکم مذکور ہے جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: ۲۰۸) (۳) اس حدیث میں سسرال کے ساتھ حسن معاشرت کا سبق دیا گیا ہے کہ آدمی اپنی بیوی کے رشتے داروں کے سامنے اس کے ساتھ تنہائی والے معاملات کا تذکرہ نہ کرے۔ (۱) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے، نیز اس حدیث میں بھی وہی مسئلہ بیان ہوا ہے جو گزشتہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔ بنا بریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود معناً صحیح ہے۔ تفصیل ک ے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل، رقم: ۴۷، ۱۵۲ و صحیح سنن النسائي اللألباني، رقم ۱۵۳) (۲) [مذاکیرہ] اس سے مراد عضو مخصوص، خصیتین اور ارد گرد کی جگہ ہے کیونکہ مذی عضو سے نکل کر ادھر ادھر لگ جاتی ہے یا اس کے لگنے کا قوی احتمال ہے، اس لیے مناسب ہے کہ عضو کے ساتھ ساتھ اطراف کو بھی دھو لے تاکہ شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ خصیتین کو دھونے سے مذی بھی منطقع ہو جائے گی، یہ اضافی فائدہ ہے۔ واجب تو اتنی جگہ ہی دھونا ہے جہاں مذی لگی ہو، البتہ امام احمد رحمہ اللہ عضو مخصوص اور خصیتین کو دھونا ضروری سمجھتے ہیں، ظاہر الفاظ اسی کی تائید کرتے ہیں بلکہ ایک روایت میں خصیتین کے دھونے کا صراحتاً حکم مذکور ہے جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: ۲۰۸) (۳) اس حدیث میں سسرال کے ساتھ حسن معاشرت کا سبق دیا گیا ہے کہ آدمی اپنی بیوی کے رشتے داروں کے سامنے اس کے ساتھ تنہائی والے معاملات کا تذکرہ نہ کرے۔