سنن النسائي - حدیث 1528

كِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ مَسْأَلَةُ الْإِمَامِ رَفْعَ الْمَطَرِ إِذَا خَافَ ضَرَرَهُ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ قَالَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَحَطَ الْمَطَرُ عَامًا فَقَامَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَحَطَ الْمَطَرُ وَأَجْدَبَتْ الْأَرْضُ وَهَلَكَ الْمَالُ قَالَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَمَا نَرَى فِي السَّمَاءِ سَحَابَةً فَمَدَّ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ يَسْتَسْقِي اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ فَمَا صَلَّيْنَا الْجُمُعَةَ حَتَّى أَهَمَّ الشَّابَّ الْقَرِيبَ الدَّارِ الرُّجُوعُ إِلَى أَهْلِهِ فَدَامَتْ جُمُعَةٌ فَلَمَّا كَانَتْ الْجُمُعَةُ الَّتِي تَلِيهَا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ تَهَدَّمَتْ الْبُيُوتُ وَاحْتَبَسَ الرُّكْبَانُ قَالَ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسُرْعَةِ مَلَالَةِ ابْنِ آدَمَ وَقَالَ بِيَدَيْهِ اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَتَكَشَّطَتْ عَنْ الْمَدِينَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1528

کتاب: بارش کے وقت دعا کرنے سے متعلق احکام و مسائل جب بارش سے نقصان کا خطر ہ ہو توامام کااس کےبند ہونے کی د عا کرنا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سال تک بارش رکی رہی تو ایک مسلمان جمعۃ المبارک کے دن (خطبے کے دوران میں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! بارش (سال بھر سے) رکی ہوئی ہے، زمین بنجر ہوگئی ہے اور جانور مررہے ہیں۔ راوی بیان کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے جب کہ ہم آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں دیکھتے تھے۔ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر اٹھائے کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ آپ اللہ عزوجل سے بارش کی دعا کرنے لگے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابھی ہم جمعہ پڑھ کر فارغ نہ ہوئے تھے (یعنی ابھی جمعے میں مصروف تھے، اتنی بارش برسی) کہ ہم میں قریب گھر والے نوجوان شخص کو بھی فکر لاحق ہوگئی کہ گھر کیسے پہنچوں گا؟ (دور والے اور بوڑھوں کی تو بات ہی کیا۔) پھر پورا ہفتہ بارش برستی رہی۔ جب اگلا جمعہ آیا تو لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! (کثرت بارش کی بنا پر) گھرگرگئے اور قافلے رک گئے۔ آپ انسان کے جلدی اکتاجانے پر مسکرائے، پھر ہاتھ اٹھا کر فرمایا: ’’اے اللہ ہمارے اردگرد بارش برسا، ہم پر نہ برسا۔‘‘ فوراً بادل مدینے سے چھٹ گئے۔
تشریح : ’’بغلوں کی سفیدی‘‘ بعض لوگوں نے سمجھا ہے کہ شاید آپ کی بغلوں میں بال نہ تھے مگر یہ بات غلط اور بلادلیل ہے۔ آپ کو انسانی عوارض سے مبرا قرار دینے کی کوشش کرنا کوئی عقل مندی کی بات نہیں اور نہ یہ چیز فضیلت کا موجب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکمل انسان تھے۔ ’’بغلوں کی سفیدی‘‘ بعض لوگوں نے سمجھا ہے کہ شاید آپ کی بغلوں میں بال نہ تھے مگر یہ بات غلط اور بلادلیل ہے۔ آپ کو انسانی عوارض سے مبرا قرار دینے کی کوشش کرنا کوئی عقل مندی کی بات نہیں اور نہ یہ چیز فضیلت کا موجب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکمل انسان تھے۔