سنن النسائي - حدیث 1525

كِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ كَرَاهِيَةُ الِاسْتِمْطَارِ بِالْكَوْكَبِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا أَنْعَمْتُ عَلَى عِبَادِي مِنْ نِعْمَةٍ إِلَّا أَصْبَحَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ بِهَا كَافِرِينَ يَقُولُونَ الْكَوْكَبُ وَبِالْكَوْكَبِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1525

کتاب: بارش کے وقت دعا کرنے سے متعلق احکام و مسائل بارش کی نسبت ستارو ں کی طرف دیکھنا منع ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب بھی میں اپنے بندوں پر کوئی نعمت (مثلاً: بارش) نازل فرماتا ہوں تو ان میں سے ایک گروہ اس کی وجہ سے کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ کہتا ہے: ہم پر فلاں ستارے نے بارش برسائی ہے یا ہم فلاں ستارے سے سیراب ہوئے۔‘‘
تشریح : مذکورہ طریقے پر بارش کی نسبت ستارے کی طرف کرنا (یعنی اس نے برسائی) کفریہ الفاظ ہیں۔ ایک موحد اس قسم کے الفاظ کہنے سے گریز کرتا ہے کیونکہ اس کا عقیدہ یہ نہیں ہوتا، مگر کافر تو اس عقیدے کے بھی قائل تھے۔ بہرصورت یہ الفاظ کفریہ ہیں، البتہ اگر ستارے کے طلوع وغیرہ کو بارش برسنے کی علامت یا وقت کہا جائے تو پھر یہ کفریہ الفاظ نہیں مگر ایک بے تحقیق اور غلط بات ضرور ہے، ہاں اگر بادلوں اورہواؤں کی طرف بارش کی نسبت بطور علامت کرے تو کوئی حرج نہیں۔ احادیث اور کلام عرب اس پر دال ہیں، نیز یہ چیزیں بارش کا ظاہری سبب ہیں، بخلاف ستاروں کے کہ ان کا ظاہراً بارش سے کوئی تعلق نہیں، نیز اس میں ستارہ پرستوں سے مشابہت ہے، لہٰذا منع ہے۔ دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ان م یں سے ایک گروہ اس کی ناشکری کرتا ہے یا اس کے نعمت الٰہیہ ہونے کا انکار کرتا ہے۔ یہاں سے ضمناً یہ معلوم ہوا کہ عقائد میں مجازات اور استعارات کا استعمال درست نہیں، خصوصاً توحید جیسے مسئلے میں۔ مذکورہ طریقے پر بارش کی نسبت ستارے کی طرف کرنا (یعنی اس نے برسائی) کفریہ الفاظ ہیں۔ ایک موحد اس قسم کے الفاظ کہنے سے گریز کرتا ہے کیونکہ اس کا عقیدہ یہ نہیں ہوتا، مگر کافر تو اس عقیدے کے بھی قائل تھے۔ بہرصورت یہ الفاظ کفریہ ہیں، البتہ اگر ستارے کے طلوع وغیرہ کو بارش برسنے کی علامت یا وقت کہا جائے تو پھر یہ کفریہ الفاظ نہیں مگر ایک بے تحقیق اور غلط بات ضرور ہے، ہاں اگر بادلوں اورہواؤں کی طرف بارش کی نسبت بطور علامت کرے تو کوئی حرج نہیں۔ احادیث اور کلام عرب اس پر دال ہیں، نیز یہ چیزیں بارش کا ظاہری سبب ہیں، بخلاف ستاروں کے کہ ان کا ظاہراً بارش سے کوئی تعلق نہیں، نیز اس میں ستارہ پرستوں سے مشابہت ہے، لہٰذا منع ہے۔ دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ان م یں سے ایک گروہ اس کی ناشکری کرتا ہے یا اس کے نعمت الٰہیہ ہونے کا انکار کرتا ہے۔ یہاں سے ضمناً یہ معلوم ہوا کہ عقائد میں مجازات اور استعارات کا استعمال درست نہیں، خصوصاً توحید جیسے مسئلے میں۔