سنن النسائي - حدیث 1519

كِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ ذِكْرُ الدُّعَاءِ حسن صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يَخْطُبُ فَاسْتَقْبَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا وَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَتْ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتْ السُّبُلُ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يُغِيثَنَا فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ أَغِثْنَا اللَّهُمَّ أَغِثْنَا قَالَ أَنَسٌ وَلَا وَاللَّهِ مَا نَرَى فِي السَّمَاءِ مِنْ سَحَابَةٍ وَلَا قَزَعَةٍ وَمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ سَلْعٍ مِنْ بَيْتٍ وَلَا دَارٍ فَطَلَعَتْ سَحَابَةٌ مِثْلُ التُّرْسِ فَلَمَّا تَوَسَّطَتْ السَّمَاءَ انْتَشَرَتْ وَأَمْطَرَتْ قَالَ أَنَسٌ وَلَا وَاللَّهِ مَا رَأَيْنَا الشَّمْسَ سَبْتًا قَالَ ثُمَّ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ ذَلِكَ الْبَابِ فِي الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يَخْطُبُ فَاسْتَقْبَلَهُ قَائِمًا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ وَسَلَّمَ عَلَيْكَ هَلَكَتْ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتْ السُّبُلُ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يُمْسِكَهَا عَنَّا فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اللَّهُمَّ عَلَى الْآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ قَالَ فَأَقْلَعَتْ وَخَرَجْنَا نَمْشِي فِي الشَّمْسِ قَالَ شَرِيكٌ سَأَلْتُ أَنَسًا أَهُوَ الرَّجُلُ الْأَوَّلُ قَالَ لَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1519

کتاب: بارش کے وقت دعا کرنے سے متعلق احکام و مسائل (نماز کی بجائے صرف )دعا کا ذکر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! جانور مرگئے اور راستے منقطع ہوگئے، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر بارش برسائے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے، پھر فرمایا: ’’اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔ اے اللہ! ہم پر بارش برسا۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اللہ کی قسم! آسمان میں بادل کیا بادل کا ٹکڑا بھی نہ دیکھتے تھے، نیز ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی مکان یا گھر بھی حائل نہ تھا۔ اچانک ڈھال جتنا چھوٹا سا بادل کا ٹکڑا (پہاڑ کے پیچھے سے) ظاہر ہوا، جب وہ آسمان کے درمیان میں (یعنی ہمارے سروں پر) آیا تو پھیل گیا اور برسنے لگا۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں: اللہ کی قسم! پھر ہم نے پورا ہفتہ (سات دن) سورج نہیں دیکھا، پھر آئندہ جمعے اسی دروازے سے ایک آدمی داخل ہوا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ وہ آپ کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ آپ پر (بے شمار) رحمتیں فرمائے۔ (پانی کی کثرت کی بنا پر) جانور مرنے لگے ہیں اور راستے بھی منقطع ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ ہم سے بارش روک لے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے اپنے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: ’’اے اللہ! ہمارے اردگرد بارش برسا، ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ! ٹیلوں پر، تودوں پر، وادیوں کے نشیب اور جنگلات میں بارش برسا۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (یہ کہنا تھا کہ) بارش فوراً رک گئی اور ہم مسجد سے نکلے تو دھوپ میں چلتے تھے۔ شریک (راوی) نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا یہ پہلا آدمی ہی تھا؟ انھوں نے فرمایا: نہیں۔
تشریح : (۱)عربی میں عبادت میں صرف لفظ لا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں ’’نہیں‘‘ یعنی یہ وہ آدمی نہیں تھا۔ مگر حدیث نمبر (۱۵۱۶) کی صراحت کے خلاف ہے، وہاں صراحت ہے کہ میں نہیں جانتا کہ یہ وہی شخص تھا یا اور، لہٰذا یہاں یہ معنی مراد ہیں کہ میں نہیں جانتا۔ واللہ اعلم۔ (۲)مذکورہ چاروں روایات میں نمازاستسقاء کے بغیر صرف دعا کا ذکر ہے، گویا نماز ضروری نہیں۔ صرف دعا بھی کافی ہے، الایہ کہ کہا جائے کہ جمعے کی دو رکعت نماز استسقاء کی جگہ کفایت کرتی ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سرے سے نمازاستسقاء یہ کے قائل نہیں، یعنی ان کے نزدیک نماز استسقاء مسنون نہیں۔ مگر یہ موقف ان صحیح اور صریح روایات کے خلاف ہے جن میں دعائے استسقاء کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر سے باہر جانا بلکہ منبر ساتھ لے جانا اور دعا کے بعد دو رکعات پڑھانے کا صراحتاً ذکر ہے، لہٰذا یہ امام صاحب کی اجتہادی غلطی ہے جسے غلطی ہی ماننا چاہیے نہ کہ ان کے قول کی وجہ سے صحیح اور صریح روایات کی دور از کار تاویلات کرنی چاہییں کہ یہ دراصل جمعے ہی کی نماز تھی صرف مسجد مسقف (چھت والی) سے باہر مسجد کے صحن میں آئے اور منبر بھی وہیں لایا گیا تھا۔ ایسی پنجگانہ تاویلیں اہل علم کے شایان شان نہیں۔ کوئی شخص بھی غلطی سے پاک اور معصوم نہیں ہے لہٰذا یہ تکلف بے جا ہے۔ (۱)عربی میں عبادت میں صرف لفظ لا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں ’’نہیں‘‘ یعنی یہ وہ آدمی نہیں تھا۔ مگر حدیث نمبر (۱۵۱۶) کی صراحت کے خلاف ہے، وہاں صراحت ہے کہ میں نہیں جانتا کہ یہ وہی شخص تھا یا اور، لہٰذا یہاں یہ معنی مراد ہیں کہ میں نہیں جانتا۔ واللہ اعلم۔ (۲)مذکورہ چاروں روایات میں نمازاستسقاء کے بغیر صرف دعا کا ذکر ہے، گویا نماز ضروری نہیں۔ صرف دعا بھی کافی ہے، الایہ کہ کہا جائے کہ جمعے کی دو رکعت نماز استسقاء کی جگہ کفایت کرتی ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سرے سے نمازاستسقاء یہ کے قائل نہیں، یعنی ان کے نزدیک نماز استسقاء مسنون نہیں۔ مگر یہ موقف ان صحیح اور صریح روایات کے خلاف ہے جن میں دعائے استسقاء کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر سے باہر جانا بلکہ منبر ساتھ لے جانا اور دعا کے بعد دو رکعات پڑھانے کا صراحتاً ذکر ہے، لہٰذا یہ امام صاحب کی اجتہادی غلطی ہے جسے غلطی ہی ماننا چاہیے نہ کہ ان کے قول کی وجہ سے صحیح اور صریح روایات کی دور از کار تاویلات کرنی چاہییں کہ یہ دراصل جمعے ہی کی نماز تھی صرف مسجد مسقف (چھت والی) سے باہر مسجد کے صحن میں آئے اور منبر بھی وہیں لایا گیا تھا۔ ایسی پنجگانہ تاویلیں اہل علم کے شایان شان نہیں۔ کوئی شخص بھی غلطی سے پاک اور معصوم نہیں ہے لہٰذا یہ تکلف بے جا ہے۔