سنن النسائي - حدیث 1516

كِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ كَيْفَ يَرْفَع حسن صحيح أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ سَعِيدٍ وَهُوَ الْمَقْبُرِيُّ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ بَيْنَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ النَّاسَ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَقَطَّعَتْ السُّبُلُ وَهَلَكَتْ الْأَمْوَالُ وَأَجْدَبَ الْبِلَادُ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَسْقِيَنَا فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ حِذَاءَ وَجْهِهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ اسْقِنَا فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمِنْبَرِ حَتَّى أُوسِعْنَا مَطَرًا وَأُمْطِرْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ إِلَى الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى فَقَامَ رَجُلٌ لَا أَدْرِي هُوَ الَّذِي قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْقِ لَنَا أَمْ لَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ انْقَطَعَتْ السُّبُلُ وَهَلَكَتْ الْأَمْوَالُ مِنْ كَثْرَةِ الْمَاءِ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يُمْسِكَ عَنَّا الْمَاءَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا وَلَكِنْ عَلَى الْجِبَالِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ قَالَ وَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ تَكَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ تَمَزَّقَ السَّحَابُ حَتَّى مَا نَرَى مِنْهُ شَيْئًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1516

کتاب: بارش کے وقت دعا کرنے سے متعلق احکام و مسائل (امام )ہاتھ کیسے اٹھائے؟ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم جمعے کے دن مسجد میں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! راستے منقطع ہوگئے اور جانور ہلاک ہونے لگے اور شہروں میں قحط پڑگیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے، ہمیں بارش عطا فرمائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرۂ مبارک کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: (اللھم!اسقنا) ’’اے اللہ! ہم پر بارش نازل فرما۔‘‘ اللہ کی قسم! ابھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نہیں اترے تھے کہ ہم پر خوب زور سے بارش برسنے لگی بلکہ اس دن سے اگلے جمعے تک بارش برستی رہی۔ تو ایک آدمی کھڑا ہوا۔۔۔ میں نہیں جانتا یہ وہی شخص تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کی دعا کرنے کو کہا تھا یا کوئی اور ۔۔۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! پانی کی زیادتی کی وجہ سے راستے منقطع ہوگئے اور جانور مرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے بارش روک لے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: (اللھم! حرالینا) ’’اے اللہ! ہمارے اردگرد بارش فرما، ہم پر نہ فرما بلکہ پہاڑوں اور جنگلات پر بارش فرما۔‘‘ اللہ کی قسم! جونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات کہے، بادل چھٹنے لگے حتی کہ ہمیں ایک ٹکڑا بھی نظر نہ آتا تھا۔
تشریح : (۱)’’چہرۂ مبارک کے برابر‘‘ یہ مسجد نبوی کے اندر کی بات ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کی روایت: (۱۵۱۴) شہر سے باہر کے بارے میں تھی، لہٰذا کوئی تعارض نہیں۔ عام دعا میں ہاتھ سینے یا چہرے کے برابر ہی اٹھائے جاتے ہیں۔ (۲)امام صاحب نے ہاتھ اٹھانے کی کیفیت کا باب نہیں باندھا۔ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دعائے استسقاء میں آپ کے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف تھی اور ہتھیلیاں زمین کے رخ تھیں۔ اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کسی واقع مصیبت کے رفع کی دعا ہو تو ہاتھ الٹے ہوں، یعنی ان کی پشت آسمان کی طرف ہو اور اگر کسی چیز کا سوال ہو تو ہتھیلیاں آسمان کی طرف ہوں۔ شاید دعائے استسقاء میں ہاتھوں کو الٹنا، چادر الٹانے کی طرح بطورِ فال ہو کہ اللہ تعالیٰ ہماری حالت بدل دے۔ (۳)آپ کی دونوں دعاؤں کی فوری قبولیت علامات نبوت میں سے ہے۔ (۱)’’چہرۂ مبارک کے برابر‘‘ یہ مسجد نبوی کے اندر کی بات ہے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کی روایت: (۱۵۱۴) شہر سے باہر کے بارے میں تھی، لہٰذا کوئی تعارض نہیں۔ عام دعا میں ہاتھ سینے یا چہرے کے برابر ہی اٹھائے جاتے ہیں۔ (۲)امام صاحب نے ہاتھ اٹھانے کی کیفیت کا باب نہیں باندھا۔ صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دعائے استسقاء میں آپ کے ہاتھوں کی پشت آسمان کی طرف تھی اور ہتھیلیاں زمین کے رخ تھیں۔ اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کسی واقع مصیبت کے رفع کی دعا ہو تو ہاتھ الٹے ہوں، یعنی ان کی پشت آسمان کی طرف ہو اور اگر کسی چیز کا سوال ہو تو ہتھیلیاں آسمان کی طرف ہوں۔ شاید دعائے استسقاء میں ہاتھوں کو الٹنا، چادر الٹانے کی طرح بطورِ فال ہو کہ اللہ تعالیٰ ہماری حالت بدل دے۔ (۳)آپ کی دونوں دعاؤں کی فوری قبولیت علامات نبوت میں سے ہے۔