سنن النسائي - حدیث 1504

كِتَابُ الْكُسُوفِ الْأَمْرُ بِالِاسْتِغْفَارِ فِي الْكُسُوفِ صحيح أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَسْرُوقِيُّ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزِعًا يَخْشَى أَنْ تَكُونَ السَّاعَةُ فَقَامَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ فَقَامَ يُصَلِّي بِأَطْوَلِ قِيَامٍ وَرُكُوعٍ وَسُجُودٍ مَا رَأَيْتُهُ يَفْعَلُهُ فِي صَلَاتِهِ قَطُّ ثُمَّ قَالَ إِنَّ هَذِهِ الْآيَاتِ الَّتِي يُرْسِلُ اللَّهُ لَا تَكُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُرْسِلُهَا يُخَوِّفُ بِهَا عِبَادَهُ فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهَا شَيْئًا فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1504

کتاب: گرھن کے متعلق احکام و مسائل گرہن کے موقع پربخشش طلب کرنے کا حکم حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ سورج گہنا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر اٹھے۔ آپ کو خطرہ ہوا کہ قیامت نہ آجائے۔ آپ اٹھے حتی کہ مسجد میں آئے اور کھڑے ہوکر اتنے لمبے قیام، رکوع اور سجدے کے ساتھ نماز پڑھی کہ میں نے کبھی آپ کو کسی نماز میں اتنے لمبے قیام، رکوع اور سجدے کرتے نہیں دیکھا، پھر آپ نے فرمایا: ’’تحقیق یہ نشانیاں جو اللہ تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے، کسی کی موت و حیات کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ انھیں، اس لیے ظاہر فرماتا ہے کہ اپنے بندوں کے دلوں میں ان کی بنا پر اپنا خوف پیدا فرمائے۔ جب تم کوئی ایسی چیز دیکھو تو فوراً اللہ کا ذکرکرو، دعائیں کرو اور اس سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرو۔‘‘
تشریح : (۱)راویٔ حدیث نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ اور جلدی سے اندازہ لگایا کہ شاید آپ کو قیامت کا خطرہ محسوس ہوا ہے، یہ نہیں کہ آپ کو واقعی قیامت کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا کیونکہ قیامت کی بہت سی نشانیاں آپ نے بیان فرمائی ہیں جن میں سے سوائے آپ کی بعثت کے اور کوئی نشانی بھی پوری نہ ہوئی تھی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ممکن ہے گھبراہٹ کی بنا پر آپ کا ذہن ان نشانیوں کی طرف متوجہ نہ ہوسکا یا اس وقت تک ابھی آپ کو دوسری نشانیاں بتلائی ہی نہ گئی تھیں، حالانکہ یہ واقعہ آپ کی وفات سے صرف چار، ساڑھے چار ماہ قبل ہوا ہے۔ آخری دونوں وجوہ کمزور ہیں۔ (۲)چاند گرہن کا کوئی واقعہ احادیث میں منقول نہیں مگر تمام احادیث میں سورج اور چاند کو اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے اور احکام بھی مشترکہ ہی دیے گئے ہیں، لہٰذا چاند گرہن کے موقع پر بھی نمازکسوف اسی طرح پڑھی جائے گی اور دیگر احکام بھی لاگو ہوں گے۔ احناف نے بعض مصالح کی بنا پر چاند گرہن میں جماعت کو مناسب نہیں سمجھا مگر روایات صراحتاً ان کے خلاف ہیں۔ (۲)نماز کسوف کے بارے میں پینتالیس (۴۵) روایات ذکر کی گئی ہیں جن کا تعلق ایک یہ واقعے سے ہے۔ کچھ مفصل ہیں کچھ مجمل، پھر بعض میں وہم اور غلط فہمی بھی ہے، لہٰذا تمام روایات کو ملا کر مجموعی طور پر جو واقعے کی کیفیت سمجھ میں آتی ہے، وہ معتبر ہوگی، نیز اکا دکا روایات میں اگر کوئی بات کثیر روایات کے خلاف آگئی ہے تو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے وہم قرار دیا جائے گا، خواہ راوی ثقہ ہی ہوں کیونکہ کسی واقعے کی تحقیق کا یہی طریقہ ہے۔ واللہ اعلم۔ (۱)راویٔ حدیث نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ اور جلدی سے اندازہ لگایا کہ شاید آپ کو قیامت کا خطرہ محسوس ہوا ہے، یہ نہیں کہ آپ کو واقعی قیامت کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا کیونکہ قیامت کی بہت سی نشانیاں آپ نے بیان فرمائی ہیں جن میں سے سوائے آپ کی بعثت کے اور کوئی نشانی بھی پوری نہ ہوئی تھی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ممکن ہے گھبراہٹ کی بنا پر آپ کا ذہن ان نشانیوں کی طرف متوجہ نہ ہوسکا یا اس وقت تک ابھی آپ کو دوسری نشانیاں بتلائی ہی نہ گئی تھیں، حالانکہ یہ واقعہ آپ کی وفات سے صرف چار، ساڑھے چار ماہ قبل ہوا ہے۔ آخری دونوں وجوہ کمزور ہیں۔ (۲)چاند گرہن کا کوئی واقعہ احادیث میں منقول نہیں مگر تمام احادیث میں سورج اور چاند کو اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے اور احکام بھی مشترکہ ہی دیے گئے ہیں، لہٰذا چاند گرہن کے موقع پر بھی نمازکسوف اسی طرح پڑھی جائے گی اور دیگر احکام بھی لاگو ہوں گے۔ احناف نے بعض مصالح کی بنا پر چاند گرہن میں جماعت کو مناسب نہیں سمجھا مگر روایات صراحتاً ان کے خلاف ہیں۔ (۲)نماز کسوف کے بارے میں پینتالیس (۴۵) روایات ذکر کی گئی ہیں جن کا تعلق ایک یہ واقعے سے ہے۔ کچھ مفصل ہیں کچھ مجمل، پھر بعض میں وہم اور غلط فہمی بھی ہے، لہٰذا تمام روایات کو ملا کر مجموعی طور پر جو واقعے کی کیفیت سمجھ میں آتی ہے، وہ معتبر ہوگی، نیز اکا دکا روایات میں اگر کوئی بات کثیر روایات کے خلاف آگئی ہے تو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے وہم قرار دیا جائے گا، خواہ راوی ثقہ ہی ہوں کیونکہ کسی واقعے کی تحقیق کا یہی طریقہ ہے۔ واللہ اعلم۔