سنن النسائي - حدیث 1486

كِتَابُ الْكُسُوفِ نَوْعٌ آخَرُ ضعيف أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ انْكَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ يَجُرُّ ثَوْبَهُ فَزِعًا حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ فَلَمْ يَزَلْ يُصَلِّي بِنَا حَتَّى انْجَلَتْ فَلَمَّا انْجَلَتْ قَالَ إِنَّ نَاسًا يَزْعُمُونَ أَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ إِلَّا لِمَوْتِ عَظِيمٍ مِنْ الْعُظَمَاءِ وَلَيْسَ كَذَلِكَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا بَدَا لِشَيْءٍ مِنْ خَلْقِهِ خَشَعَ لَهُ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَصَلُّوا كَأَحْدَثِ صَلَاةٍ صَلَّيْتُمُوهَا مِنْ الْمَكْتُوبَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1486

کتاب: گرھن کے متعلق احکام و مسائل ایک اور صورت حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گہنا گیا۔ آپ گھبرا کر اپنا کپڑا (بالائی چادر) گھسیٹتے ہوئے گھر سے نکلے حتی کہ مسجد میں آئے اور ہمیں نماز پڑھائی حتی کہ سورج صاف ہوگیا۔ جب سورج صاف ہوگیا تو فرمایا: ’’لوگ کہتے ہیں کہ سورج اور چاند کسی بڑے سردار کی موت ہی پر گہناتے ہیں، حالانکہ یہ حقیقت نہیں۔ سورج اور چاند کسی کی موت و حیات کی وجہ س نہیں گہناتے بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی (عظمت و توحید کی) نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں۔ جب اللہ عزوجل اپنی کسی مخلوق پر تجلی فرماتا ہے تو وہ مخلوق فوراً اس کی اطاعت کرتی ہے۔ جب تم یہ صورت حال دیکھو تو اس قریب ترین فرض نماز کی طرح نماز پڑھو جو تم نے (اب سے پہلے) پڑھی ہے، (یعنی فجر کی طرح۔‘‘)
تشریح : ’’قریب ترین نماز کی طرح‘‘ احناف نے ان الفاظ سے استدلال کیا ہے کہ نمازکسوف میں ایک رکوع ہی کرنا چاہیے، حالانکہ دو رکوع والی روایات اقویٰ اور بالکل صریح ہیں جبکہ اس روایت میں رکوع کا ذکر نہیں۔ باقی رہی تشبیہ تو وہ رکعات کی تعداد میں بھی ہوسکتی ہے، یعنی دورکعات پڑھو۔ کیا مبہم روایت کی وجہ سے بہت سی صریح اور قوی روایات کو چھوڑا جاسکتا ہے؟ پھر لطیفہ یہ ہے کہ صبح کی نماز تو جہراً ہوتی ہے۔ اس تشبیہ کے مطابق تو نمازکسوف جہراً ہونی چاہیے، مگر احناف اس کے قائل نہیں جبکہ جہر کا ذکر صحیح حدیث میں ہے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ صحیح حدیث کے موافق تو استدلال نہ کیا جائے۔ لیکن دوسری صحیح احادیث کے خلاف استدلال کیا جائے؟ واللہ ھو الموفق۔ علاوہ ازیں مذکورہ روایت کو محققین نے ضعیف قرار دیا ہے، تاہم حدیث کے پہلے حصے: [ان الشمس والقمر لاینکسفان الا لموت عظیم۔۔۔ ولا لحمائۃ] کو تو صحیح قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کا مجموعی مضمون دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے، البتہ اس سے اگلا حصہ محققین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی:۱۷؍۹۔۱۴، وضعیف سنن النسائی للالباتی، رقم:۱۴۸۴) ’’قریب ترین نماز کی طرح‘‘ احناف نے ان الفاظ سے استدلال کیا ہے کہ نمازکسوف میں ایک رکوع ہی کرنا چاہیے، حالانکہ دو رکوع والی روایات اقویٰ اور بالکل صریح ہیں جبکہ اس روایت میں رکوع کا ذکر نہیں۔ باقی رہی تشبیہ تو وہ رکعات کی تعداد میں بھی ہوسکتی ہے، یعنی دورکعات پڑھو۔ کیا مبہم روایت کی وجہ سے بہت سی صریح اور قوی روایات کو چھوڑا جاسکتا ہے؟ پھر لطیفہ یہ ہے کہ صبح کی نماز تو جہراً ہوتی ہے۔ اس تشبیہ کے مطابق تو نمازکسوف جہراً ہونی چاہیے، مگر احناف اس کے قائل نہیں جبکہ جہر کا ذکر صحیح حدیث میں ہے۔ کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ صحیح حدیث کے موافق تو استدلال نہ کیا جائے۔ لیکن دوسری صحیح احادیث کے خلاف استدلال کیا جائے؟ واللہ ھو الموفق۔ علاوہ ازیں مذکورہ روایت کو محققین نے ضعیف قرار دیا ہے، تاہم حدیث کے پہلے حصے: [ان الشمس والقمر لاینکسفان الا لموت عظیم۔۔۔ ولا لحمائۃ] کو تو صحیح قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کا مجموعی مضمون دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے، البتہ اس سے اگلا حصہ محققین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی:۱۷؍۹۔۱۴، وضعیف سنن النسائی للالباتی، رقم:۱۴۸۴)