سنن النسائي - حدیث 1485

كِتَابُ الْكُسُوفِ نَوْعٌ آخَرُ ضعيف أَخْبَرَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ هِلَالٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ قَيْسٍ قَالَ حَدَّثَنِي ثَعْلَبَةُ بْنُ عَبَّادٍ الْعَبْدِيُّ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ أَنَّهُ شَهِدَ خُطْبَةً يَوْمًا لِسَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ فَذَكَرَ فِي خُطْبَتِهِ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَمُرَةُ بْنُ جُنْدُبٍ بَيْنَا أَنَا يَوْمًا وَغُلَامٌ مِنْ الْأَنْصَارِ نَرْمِي غَرَضَيْنِ لَنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ قِيدَ رُمْحَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ فِي عَيْنِ النَّاظِرِ مِنْ الْأُفُقِ اسْوَدَّتْ فَقَالَ أَحَدُنَا لِصَاحِبِهِ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْمَسْجِدِ فَوَاللَّهِ لَيُحْدِثَنَّ شَأْنُ هَذِهِ الشَّمْسِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُمَّتِهِ حَدَثًا قَالَ فَدَفَعْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ قَالَ فَوَافَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجَ إِلَى النَّاسِ قَالَ فَاسْتَقْدَمَ فَصَلَّى فَقَامَ كَأَطْوَلِ قِيَامٍ قَامَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ مَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا ثُمَّ رَكَعَ بِنَا كَأَطْوَلِ رُكُوعٍ مَا رَكَعَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ مَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا ثُمَّ سَجَدَ بِنَا كَأَطْوَلِ سُجُودٍ مَا سَجَدَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا ثُمَّ فَعَلَ ذَلِكَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ قَالَ فَوَافَقَ تَجَلِّي الشَّمْسِ جُلُوسَهُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ فَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَشَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَشَهِدَ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ مُخْتَصَرٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 1485

کتاب: گرھن کے متعلق احکام و مسائل ایک اور صورت حضرت ثعلبہ بن عباد عبدی سے روایت ہے۔۔۔ وہ بصرہ کے رہنے والے تھے۔۔۔ انھوں نے اپنے خطبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان فرمائی۔ فرمایا: ایک دن میں اور انصار کا ایک لڑکا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں (اپنے مقرر کردہ نشانوںپر) تیراندازی کررہے تھے۔ جب سورج دیکھنے والے کی نظر میں افق سے دوتین نیزے اونچا آگیا تو بے نور ہوگیا۔ ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: آؤ مسجد چلیں۔ اللہ کی قسم! سورج کی یہ حالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ کی امت میں کسی نئے حکم کا سبب بنے گی۔ ہم مسجد کی طرف چلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لوگوں کی طرف نکلتے ہوئے ملے۔ آپ آگے بڑھے اور نماز شروع کردی۔ آپ نے اتنا لمبا قیام فرمایا کہ کبھی کسی نماز میں اتنا لمبا قیام نہیں فرمایا۔ ہم آپ کی آواز نہیں سنتے تھے، پھر آپ نے ہمارے ساتھ رکوع کیا اور اتنا لمبا رکوع کہ کبھی کسی نماز میں اتنا لمبا رکوع نہیں کیا تھا۔ ہم آپ کی آواز نہیں سنتے تھے، پھر آپ نے ہمارے ساتھ سجدہ کیا۔ اتنا لمبا سجدہ کہ کبھی کسی نماز میں اتنا لمبا سجدہ نہیں کیا تھا۔ ہم آپ کی آواز نہیں سنتے تھے، پھر آپ نے دوسری رکعت میں بھی ایسےہی کیا۔ جب آپ دوسری رکعت کے آخر میں بیٹھے تو سورج روشن ہوچکا تھا۔ آپ نے سلام پھیرا، پھر اللہ کی حمدوثنا کی اور اس بات کی شہادت دی کہ اللہ کے سوا کوئی (حقیقی اور سچا) معبود نہیں اور اس بات کی شہادت دی کہ وہ (آپ) اللہ کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں۔ یہ روایت مختصر ہے۔
تشریح : (۱)’’ہم آپ کی آواز نہیں سنتے تھے۔‘‘ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے بلند آواز سے قراءت نہیں کی بلکہ اپنے سماع کی نفی کی ہے کہ اجتماع اتنا زیادہ تھا اور ہم اتنی دور تھے کہ ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ حقیقتاً یہ الفاظ آپ کی جہر پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ کی آواز تو تھی مگر ہمیں سنائی نہیں دیتی تھی۔ (۲)اس روایت میں صرف ایک رکوع اور ایک سجدے کا ذکر ہے۔ دراصل یہ روایت مختصر ہے۔ مقصد رکوع اور سجدے کی طوالت کا اظہار ہے نہ کہ تعداد کا بیان۔ حقیقتاً دو رکوع تھے اور دوسجدے جیسا کہ دوسری مشہور روایات میں صراحتاً ذکر ہے، ورنہ ایک سجدے کا تو کوئی بھی قائل نہیں، نیز بعض محققین کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ اس صورت میں مذکورہ بالا تطبیق کی ضرورت نہیں رہتی۔ مزید دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: ۱۷؍۵۔۹، وضعیف سنن النسائی، رقم: ۱۴۸۳، وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشارعواد، حدیث:۱۲۶۴) (۱)’’ہم آپ کی آواز نہیں سنتے تھے۔‘‘ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے بلند آواز سے قراءت نہیں کی بلکہ اپنے سماع کی نفی کی ہے کہ اجتماع اتنا زیادہ تھا اور ہم اتنی دور تھے کہ ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ حقیقتاً یہ الفاظ آپ کی جہر پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ کی آواز تو تھی مگر ہمیں سنائی نہیں دیتی تھی۔ (۲)اس روایت میں صرف ایک رکوع اور ایک سجدے کا ذکر ہے۔ دراصل یہ روایت مختصر ہے۔ مقصد رکوع اور سجدے کی طوالت کا اظہار ہے نہ کہ تعداد کا بیان۔ حقیقتاً دو رکوع تھے اور دوسجدے جیسا کہ دوسری مشہور روایات میں صراحتاً ذکر ہے، ورنہ ایک سجدے کا تو کوئی بھی قائل نہیں، نیز بعض محققین کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔ اس صورت میں مذکورہ بالا تطبیق کی ضرورت نہیں رہتی۔ مزید دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: ۱۷؍۵۔۹، وضعیف سنن النسائی، رقم: ۱۴۸۳، وسنن ابن ماجہ بتحقیق الدکتور بشارعواد، حدیث:۱۲۶۴)